اسمبلیوں سے استعفوں پر اپوزیشن کنفیوژڈ کیوں ہے؟

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن اس معاملے پر ابھی تک تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہوتا نظر نہیں آتا۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کئے گئے اعلان کے مطابق عمران خان نے استعفیٰ نہ دیا تو وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر عوامی طاقت سے پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجیں گے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک طرف اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے پر غور کر رہی ہیں تو دوسری طرف عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن اراکین نے استعفے دیے تو فوری منظور کر لیے جائیں گے اور ضمنی انتخابات کروا دیے جائیں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے آئندہ برس فروری میں اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم استعفوں کے معاملے پر باہمی اتفاق نہ ہونے کے باعث پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تاحال ضمنی الیکشن اور سینیٹ ے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ نہیں کر سکی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی مستقبل کی حکمتِ عملی کا وضع نہ ہونا، کپتان حکومت کے سخت مؤقف کو تقویت دے رہا ہے جو اب اس معاملے پر اپوزیشن کا مذاق اڑانے پر اتر آئی یے۔ حکومت کی طرف سے تو اب اپوزیشن کو یہ کہا جا رہا ہے کہ جب استعفے دے نہیں سکتے تو اعلان کیوں کرتے ہو۔
دوسری طرف استعفوں کے معاملے پر تمام تر اختلافات کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا بظاہر یہی موقف ہے کہ وہ استعفی دینے کے فیصلے پر قائم ہیں اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو 31 دسمبر تک استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروا دیں گے۔ تاہم حکمتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے وقت کے بارے میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں یکسوئی نہیں پائی جاتی۔ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی فوری طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں اور چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا جانا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس مؤقف کے بعد مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی نے مولانا فضل الرحمٰن سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم اس معاملے پر تاحال کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں صوبائی حکومت ہے جس پر وہ بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ استعفی آخری حربہ ہونا چاہیے۔ زرداری کا موقف ہے کہ سینیٹ کا الیکشن اپوزیشن اکٹھے ہو کر لڑے اور اس کے بعد پہلے چیئرمین سینٹ اور پھر وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں لائی جائیں۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائیں تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی تاہم زرداری فارمولہ کے مطابق اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنادے تو پھر اسمبلیوں سے استعفے دے دینا چاہئیں۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لاہور جلسے کے بعد استعفوں کے معاملے پر حزبِ اختلاف میں ابہام ہے اور ایسے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کا ارادہ واضح نہیں ہے۔ بلکہ اس بات پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا نقطۂ اتحاد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے جسں کے لیے وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے اور کوئی ایسا اقدام نہیں لیں گے کہ ان کے استعفے رائیگاں چلے جائیں۔سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف ایسی صورتِ حال میں اجتماعی استعفے دے گی کہ حکومت کا خاتمہ یقینی ہو سکے۔ نہ کہ خود سسٹم سے باہر ہو جائیں۔
یاد رہے کہ 2014 میں تحریکِ انصاف نے اسمبلی سے استعفے دیتے ہوئے اسلام آباد میں 126 دن تک دھرنا دیا تھا۔ تاہم وہ حکومت گرانے میں ناکام رہے تھے اور پھر انہوں نے اس پیسے بھی واپس لے لیے تھے۔
سینئر صحافی سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں دباؤ میں نہیں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بیان دیا کہ اگر استعفے آ بھی جائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سلیم بخاری نے کہا کہ عمران خان صرف بیان ہی نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کو مستعفی ہونے کا چیلینج بھی دے رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر آدھی اسمبلی مستعفی ہو جائے تو الیکشن کمیشن کے پاس نئے انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا اور ماضی کی جمہوری روایات بھی یہی ہیں۔ سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں پی ڈی ایم تاحال اس بات میں کامیاب رہی ہے کہ حزبِ اختلاف کی قیادت کے درمیان کسی قسم کا اختلاف سامنے نہ آئے۔ البتہ اس بات پر تحفظات موجود ہیں کہ استعفوں کا استعمال کب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف کو فون کر کے اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ حزبِ اختلاف کو سینیٹ انتخابات سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی دیگر بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دیے جائیں تاکہ الیکٹورل کالج ٹوٹ جائے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم میں اختلافات جنم لیتے ہیں تو پھر عمران خان کو بقیہ مدت پوری کرنے کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے گا کیوں کہ پھر اپوزیشن کو دوبارہ تحریک کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعض اپوزیشن اراکین مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہیں اور خطرہ ہے کہ کہیں وہ اپنی جماعتوں سے بغاوت کر کے اسمبلیوں میں ووٹ بلاک نہ بنا لیں جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اشارہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں کے تمام اراکین نے استعفے جمع نہیں کروائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ملکی سیاست کے غیر محسوس کردار اب آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے مردان جلسے میں کہا تھا کہ حکومت کو لانے والے اب انہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم پر تنقید نہ کریں کیونکہ آپ کی لڑائی ہم سے نہیں ہے۔ عمران خان بھی مسلسل یہ کہے جارہے رہے ہیں کہ اپوزیشن فوج پر دباؤ ڈال رہی ہے تا کہ مجھے اقتدار سے نکالا جائے۔ اس صورتِ حال میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان اب وہ فاصلے پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں جن کے بعد ہی اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہونے کا کوئی امکان ہوگا۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ مقتدر قوتیں اور حکومت کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں اور بظاہر دونوں ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔البتہ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ یہ ضرور چاہتی ہے کہ انہیں سیاسی معاملات میں ملوث نہ کیا جائے۔ لیکن سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے اس بیان کی فوج کی جانب سے تردید نہیں آئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کہا ہے کہ ان پر تنقید کے بجائے حکومت پر تنقید کی جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج اب خود کو عمران خان کی حکومت سے علیحدہ دکھانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی پاکستان کی ناکام ترین حکومت کو اسٹیبلشمنٹ اور کتنا عرصہ اپنے کندھوں کا بوجھ بنا کر رکھ پائے گی۔ تاہم فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہے گی کہ اپوزیشن کی تحریک اتنا زور ضرور پکڑے کہ عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست کی اصل فیصلہ ساز اسٹیبلشمنٹ ہے لہذا عمران مخالف اپوزیشن تحریک بھی اس کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو پائے گی۔