اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران ہنگامہ آرائی اور مارکٹائی کا منصوبہ
3 اپریل کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز حکمران جماعت نے نہ صرف اسلام آباد کی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بنایا ہے بلکہ قومی اسمبلی کے اندر بھی لڑائی مار کٹائی کی پلاننگ کرنے کی اطلاعات ہیں تاکہ اس بہانے اجلاس ملتوی کیا جا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کچن کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ دو ہفتے پہلے وزیراعظم نے تحریری طور پر حکومتی جماعت کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو ہدایت کی تھی کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی احاطے میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس حکم نامے کا بنیادی مقصد اپنی جماعت کے منحرف اراکین اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد میں ڈالنے سے روکنا تھا۔
تاہم اب سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلی سیشن میں جا کر مخالفین کا مقابلہ کیا بجائے کہ خاموشی سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کو پاس ہونے دیا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ عمران خان خود بھی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اراکین اسمبلی کی یہ کوشش ہوگی کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور مار کٹائی کی جائے تاکہ اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ووٹنگ کے بغیر ہی ملتوی کرنے کا بہانہ مل سکے۔ مبینہ حکومتی منصوبے کے مطابق تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کو ٹارگٹ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا تاکہ اجلاس کا ماحول خراب ہو جائے اور حکومتی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔
دوسری جانب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی 3 اپریل کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کروائیں گے تو وہ آئین کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے جس کی پاداش میں ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے عمران خان کی جانب سے سیاسی حکمت عملی تبدیل کیے جانے کے بعد اپنی حکومت عملی بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن نے عمران خان کی سابقہ اتحادی جماعتوں کے۔ممبران اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو محفوظ طریقے سے اسمبلی پہنچانے اور وہاں سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ حکومتی اراکین کی جانب سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا جواب تحمل سے دیا جائے گا تا کہ اسمبلی اجلاس میں ہنگامہ آرائی اور مارکٹائی کا منصوبہ ناکام بنایا جاسکے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس کے روز ایک لاکھ پارٹی کارکنان کو اسلام آباد بلانے پر اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان خونی تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما باقاعدہ آڈیو پیغامات کے ذریعے اپنے کارکنان کو 3 اپریل کے روز اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر رہے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ پیغام وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہے۔ اب تک جن پارٹی رہنماؤں کے آڈیو پیغامات سامنے آ چکے ہیں ان میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اعلی خیبر پختون خوا محمود خان اور دیگر قائدین شامل ہیں۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اپنے حامیوں کو جمع کرنے کے منصوبے کے بعد شہباز شریف نے اسلام آباد کیپٹل ٹریژری انتظامیہ سے پارٹی وابستگی سے قطع نظر ہر رکن قومی اسمبلی کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سیکیورٹی میں اضافہ کرتے ہوئے بدلتے حالات کے پیش نظر شہباز شریف کو پولیس کمانڈوز فراہم کر دیئے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے ایک منحرف رکن قومی اسمبلی نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کی ایک آڈیو لیک ہونے کے بعد الزام لگایا ہے کہ اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتی دیکھ کر عمران خان نے پاکستان میں افغانستان جیسےحالات پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا یے، اپنے اس آڈیو پہغام میں پرویز خٹک کی طرح محمود خان نے بھی پارٹی کارکنان کو ہدایت کی ہے کہ وفاداریاں بدلنے والے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کو نشان عبرت بنا دیا جائے اور اس مقصد کے لیے 3 اپریل کو اسلام آباد پنچا جائے۔ اس سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ پارٹی منحرفین کو لاکھوں عوام کے مجموعے میں سے گزر کر قومی اسمبلی میں جانا ہوگا۔
دوسری جانب شہباز شریف نے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کو خط لکھ کر 3 اپریل کو عمران کے خلاف ووٹ ڈالنے والے تمام اراکین قومی اسمبلی کو مکمل سیکیورٹی کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اسلام آباد انتظامیہ کو کہا کہ ’یہ آپ کی آئینی اور قانونی ذمہ داری اور فرض ہے کہ جب اراکین، قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 (1) کے تحت تمام اراکین کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر ان کی مکمل حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
قائد حزب اختلاف نے خط میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کی صبح 11 بج کر 30 منٹ پر ہوگا جب قرارداد پر ووٹنگ کی جائے گی، شہباز شریف نے خط میں وزیراعظم عمران خان کی 29 مارچ کو میڈیا نمائندوں سے گفتگو کا حوالہ دیا جس میں کہا تھا کہ ووٹنگ کے دن پی ٹی آئی کے ایک لاکھ حامی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوں گے۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنے خط میں کہا کہ ووٹنگ کے روز ایسا کوئی بھی اجتماع صریحاً خلاف ورزی ہوگی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے 18 مارچ کے حکم کے مطابق سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت ریڈ زون کے اندر پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی اجتماع لامحالہ دیگر جماعتوں کو اپنے تحفظ کے لیے اپنے حامیوں کو لانے کے لیے اُکسائے گا، جس سے خونریزی اور افراتفری پھیل سکتی ہے، شہباز شریف نے کہا کہ یہ اسلام آباد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ 3 اپریل کو تمام اراکین قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے اور جانے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرے۔ مسلم لیگ ن کے صدر نے مزید کہا کہ حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہئیں کیونکہ سندھ ہاؤس واقعے کی طرز پر غفلت یا ناکافی تیاری جیسا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔