اسٹیبلشمنٹ نے شہباز کو پھرٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا

اپنے سیاسی کیریئر کے دوران ہمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے والے شہباز شریف کو بار بار کے جھوٹے وعدوں کے بعد اب ایک نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور اس مرتبہ ان کے ذمہ 18ویں آئینی ترمیم کو ٹھکانے لگانے کا کام لگایا گیا ہے جس کے بدلے میں ان سے ایک مرتبہ پھر وزارت عظمیٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو دیئے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ انہیں الیکشن 2018 سے ایک ماہ پہلے تک وزیراعظم بنائے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور وہ مقتدر لوگوں کے ساتھ اپنی کابینہ طے کر رہے تھے۔ اپنی باتوں اور انکشافات سے بظاہر وہ اپنی دوراندیشی، وفاداری، اپنی ناتمام حسرتوں اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی "خاندانی” رکاوٹوں کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ ان کی اس گفتگو کا مقصد دراصل اپنی پارٹی اور لیڈرشپ یعنی نواز شریف اور مریم نواز وغیرہ کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ ان کا اختیار کیا ہوا راستہ مسلم لیگ ن کو اقتدار سے بہت دور لے گیا اور اگر ان کی بات مان لی جاتی یا اب بھی ان کے مشورہ کو صائب مانا جائے تو پھر سے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ویسے تو یہ واحیات دعویٰ کسی مہذب معاشرے میں کیا جانا کسی بھی با کردار اور با ضمیر سیاستدان کے لیے بہت ہی خفت کا باعث ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہبازشریف سچ کہہ رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں بظاہر دو وجوہات کی بنیاد پر شہباز شریف کی رائے صائب نظر آتی ہے. ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام بہت کمزور ہے۔ اس پر کبھی سرعام اور کبھی خفیہ شب خون مارے جاتے ہیں لہذا اس جمہوری پودے کو بارآور درخت بننے تک احتیاط سے چلا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ایک مقبول جماعت ضرور ہے لیکن وہ اس طرح منظم نہیں کہ کسی ناانصافی اور زیادتی پر منظم طریقہ سے ایسا احتجاج یا تحریک چلا سکے کہ مقتدر حلقے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائیں اور یہ وہ جماعت ہے جو اسکے بانی جنرل ضیا کے دور سے ہی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم رہی اس لئے اسکا ووٹر بھی اس پرانی طرز سیاست کا حامی ہے اور اسےذیادہ مائنڈ نہیں کرتا۔
شہباز شریف اس دفعہ اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ اپنی جماعت کے ووٹر کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ دراصل ان کا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے۔ لیکن ان کے اس استدلال کو مان لینے کے باوجود اب تک یہی دیکھا گیا ہےکہ چاہے 2018 کے الیکشن متنازعہ ہی سہی لیکن ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کا صدر ناقابل یقین سمجھوتوں، بہت زیادتیوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود چند ایک معمولی رعایتوں کے علاوہ اب تک کچھ حاصل نہیں کر سکا۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کبھی نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہر دفعہ ثابت ہوا کہ ان کا بیانیہ ن لیگ کیلئے فکری تقسیم اور کمزوری کا باعث بنا ہے. اتنی بڑی پارٹی کا صدر ہونے کے باوجود ماضی قریب گواہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی کوئی باوقار اور اچھی ڈیل نہیں کر سکے۔ وہ بارہا ن لیگ کے ووٹ کے دباؤ کو اپنے ہی حق میں بھی استعمال کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے اور اپنے بیانیہ کے مُطابق کوئی اچھی ڈیل کی بجائے کچھ معمولی رعایتوں پر ہی راضی ہوتے نظر آئے. جب نوازشریف نے اپنی نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے جانے کا فیصلہ کیا تو شہبازشریف نے اپنے آپ کو اس تمام سرگرمی سے دور رکھا۔ ہو سکتا ہے انہیں اس فیصلے سے اختلاف ہو لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو نوازشریف کے جانشین کے طور پر یا بہتر ڈیل کیلئے ان کا ساتھ ہونا ضروری تھا لیکن انہوں نے "فرمانبردار” ہونے کا ثبوت دیا لہذا سوچ کی واضح تقسیم نہ نواز شریف کے کام آئی اور نہ ہی شہباز شریف کوئی آشیرباد حاصل کر سکے۔
نیب عدالت کے فیصلہ کے بعد جب نواز شریف نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تو ان کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے کیلئے شہباز شریف سمیت کئی پیغام رسانوں نے اپنے تئیں کوشش کی لیکن وہ نواز شریف کو نہ روک سکے. نواز شریف کا الیکشن کے دوران واپس آنا مقتدر قوتوں پر دباؤ بڑھانے کیلئے تو بہت بڑا اقدام تھا ہی لیکن شہباز شریف کی ڈیل کیلئے بھی ایک طاقتوربنیاد کی فراہمی تھی. لیکن اس وقت بھی شہباز شریف نے یہ سنہری موقع ضائع کیا اور بوٹ والوں کی فرمانبرداری میں ہی عافیت جانا۔ ایک تو انہوں نے باقاعدہ کوشش سے نواز شریف کے استقبال کیلئے آنے والی عوام کو ائرپورٹ پہنچنے نہ دیا۔ دوسرا یہ کہ پارٹی صدر کے طور پر انہوں نے نوازشریف کی لازمی گرفتاری کے بعد کی صورتحال کیلئے پارٹی کی سطح پر کوئی پلان بی تشکیل نہ دیا۔ نتیجتاً بوٹ والوں کو ن لیگ کے دباؤ کا خوف بھی چلا گیا اور بعد ازاں نواز شریف اور مریم نواز کو ایک طویل اور تکلیف دہ قید کا بھی سامنا کرنا پڑا.
وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ دھرنے کا جس نے مرتی ہوئی اپوزیشن کے جسم میں نئی روح پھونک دی. یہ شہبازشریف ہی تھے جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن اس دھرنے کی مکمل امداد اور بھرپور شرکت کے وعدہ کے باوجود پھر چند معمولی رعایتوں اور وعدہ فردا کے عوض اس دھرنے سے بھاگ نکلی. اب کوئی مانے یا نہ مانے یہ دھرنا اور نواز شریف کی علالت ہی تھی جس سے کپتان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے جس کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی جیل سے رہائی ممکن ہوئی اور دوسری طرف شہباز شریف کی لیڈرشپ کی کمزوری اور دوغلا پن بھی عام لوگوں پر آشکار ہوا۔
اس سب کے عوض شہباز شریف کے ذمہ یہی کام لگا کہ وہ خاندان کے دباؤ کے ذریعے نواز شریف کو باہر جانے پر آمادہ کریں اور اس کے بدلے نواز شریف کی ہسپتال سے گھر اور برطانیہ روانگی پر "سرکاری” پروٹوکول حاصل کریں لیکن ساتھ ہی مریم نواز کو خاموش کروا کے گھر میں بٹھاہا گیا. حالانکہ سب کو پتہ تھا کہ زندہ نواز شریف کو باہر بھیجنا سب سے زیادہ کس کے مفاد میں تھا. آنے والے دنوں میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بھی شہباز شریف دور سے ہی ہاتھ ہلاتے نظر آئے. جنرل قمرباجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی آئینی ترمیم کی حمایت میں شہباز شریف نے کس طرح اپنے بھائی کو راضی کیا اور جیسے اپنی پارٹی کو سختی سے ہدایات جاری کیں کہ کسی ترمیم کی تجویز تو کیا اس ترمیم پر بحث بھی نہیں کرنی ہے. اس معاملے پر بھی بھی ن لیگی قیادت کی عوام کے ہاتھوں تاریخی چھتر پریڈ ہوئی۔ تاہم بوٹ پالش مہم کے سرخیل شہباز کا خیال تھا کہ اب کی بار اس ڈیل کے عوض ان کے ساتھ جو وعدے کئے گئے ہیں وہ ایفا ہونگے اور وہ جلد ہی مستند اقتدار پر فائز ہوجائیں گے۔
لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات. پھر سے لیگی رہنماؤں کے بے سروپا مقدموں میں نیب اور جیل کے چکر اور شہبازشریف کیلئے وہی دائرے کا سفر۔ اگر اس کھیل میں کوئی حقیقت تھی بھی سہی تو اس کی جان کرونا کی وبا نے نکال دی۔ تاکم اس کے باوجود شہبازشریف بڑے طمطراق سے پاکستان پہنچے۔ لیکن آتے ہی ان سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کو نیب کے نوٹس آنا شروع ہو گئے۔ ان کے خاندان کے مالی معاملات پر پھر سے نئی نئی کہانیاں میڈیا پر آنا شروع ہو گئیں۔ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہا لیکن ایسے لگتا ہے شہبازشریف کو نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے. کہا جا رہا یے کہ اب کی بار ان سے اٹھارویں ترمیم کو ٹھکانے لگانے کا کام ذمہ لگایا گیا ہے اور اس کے بدلے انہیں پھر تسلی دی جا رہی ہے کہ وہ جلد وزارت عظمٰی کے منصب پر براجمان ہوں گے۔
لیکن شہباز شریف کو سوچنا ہوگا کہ ملک کی ترقی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا اور بات اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا یا ان کو سیاست کی باگ ڈور حوالے کرنا بالکل دوسری بات ہے. شہبازشریف کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ بوٹ والوں کو بھی علم ہے کہ ووٹ بنک صرف نواز شریف کا ہے اورمستقبل میں یہ ووٹ بنک شہبازشریف کی بجائے مریم نواز کو منتقل ہوگا۔ جب شہباز ذاتی طور پر کسی فیصلہ کی پوزیشن میں ہی نہیں تو ان قوتوں کو عمران خان ہی بہتر لگے گا کیونکہ اس کی پارٹی اسی کے فیصلوں کے تابع ہے۔
شہباز شریف کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ سمجھوتوں کی سیاست میں بھی اپنے آپ کو عمران خان کے ہم پلہ نہیں بنا سکے. جب بھی کسی ڈیل کا موقع آیا تو شہبازشریف بہت چھوٹی رعایتیں حاصل کرنے کیلئے پارٹی کے موقف کو قربان کرتے نظر آئے۔ وہ کسی پلان بی میں تو شاید اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوگئے ہوں لیکن فی الحال انہیں کبھی تو کوئی چھوٹی سی خوشخبری سنا کر خوش کیا جاتا ہے اور کبھی انہیں خوفزدہ کرنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تو سمجھے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی ایک باوقار اور با اصول سیاسی رہنما کا درجہ نہیں پا سکے.