اسٹیبلشمنٹ نے عمران کو ریس کا گھوڑا کیسے بنایا؟


فوجی اسٹیبلشمینٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنے والے عمران خان کے سیاسی سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا ہے کہ چونکہ میں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود فوج اور ملک کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہوں، اس لئے میں تب ہی عمران کا ناقد بن گیا تھا جب اسٹیبلشمنٹ نے ان پر کاٹھی ڈال کر انہیں اپنا ریس کا گھوڑا بنایا تھا۔
اپنے سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید عمران سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے حالانکہ وہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں،جن سے میری ذاتی شناسائی میدان صحافت میں آنے سے بھی قبل ہوئی تھی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد علی درانی اور عمران خان وہ تین سیاستدان ہیں،جن سے میرا تعارف دور طالب علمی میں ہوگیا تھا۔جنرل حمید گل مرحوم کے علاوہ حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر فاروق خان مرحوم اور محمد علی درانی وہ لوگ تھے جو عمران خان کو سیاست کے میدان میں لائے تھے۔ ڈاکٹر فاروق خان میرے بڑے بھائی کی مانند دوست اور نظریاتی تربیت کرنے والے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور پی ٹی آئی کا دستور بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔ محمد علی درانی کے ساتھ بھی میری دور طالب علمی سے بھائی بندی ہے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے میدان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابتدائی نشستوں میں ان سے متنفر ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق خان سال ڈیڑھ ان کے ساتھ چلے اور پھر خاموشی کے ساتھ الگ ہوگئے۔ عمران خان سیاست کریں یا نہ کریں؟
بقول سلیم صافی عمران کی سیاست میں آنے سے پہلے اس معاملے پر کافی بحث ہوئی۔ اس سوال پر ابتدائی نشستیں لاہور میں جاوید احمد غامدی کے گھر پر ہوئی تھیں۔ میں کئی دن پر محیط اس بحث کو ایک کونے میں بیٹھ کر سنتا رہا۔ جاوید غامدی، عمران خان کو سیاست سے منع کررہے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ عمران خان سیاست کے لئے موزوں نہیں۔ وہ انہیں شوکت خانم کی طرح مزید پروجیکٹ شروع کرنے اور ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کہتے رہے لیکن عمران خان سیاست کی طرف مائل تھے۔ دوسری طرف جنرل حمید گل، حفیظ نیازی اور ڈاکٹر فاروق خان چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔
صافی کے مطابق، کئی روز پر محیط اس مباحثے کو سننے کے نتیجے میں ایک تو میں بھی جاوید احمد غامدی کی رائے کا قائل ہوگیا اور دوسرا عمران خان کے بارے میں میری رائے بھی یکسر تبدیل ہوگئی۔ رب تک میں کرکٹر اور سوشل ورکر ہونے کے ناطے عمران خان کا فین تھا اور انہیں سیدھا سادہ انسان سمجھ رہا تھا لیکن تب مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ صرف کرکٹر نہیں بلکہ عملی زندگی کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔ میری یہ رائے بنی کہ وہ اسٹیٹس مین تو نہیں لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ایک ایسے انسان ہیں جن کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے سامنے مختلف روپ سامنے لاتے ہیں۔ بہ ہر حال وہ میدان سیاست میں آئے۔ 2011 تک میں نے ان کی سیاست کو نہ تو کوئی خاص توجہ دی اور نہ ہی ان پر تنقید کی۔ لیکن پھر جب مجھے معلوم ہوا کہ پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ انہیں نئے سیاسی گھوڑے کے طور پر تیار کرنے لگی ہے تو عمران میری خصوصی تنقید کا نشانہ بننے لگے۔
سلیم صافی بتاتے ہیں کہ عمران ایک زمانے میں پرویز مشرف کے بہت قریب آ ہو چکے تھی لیکن یہ تعلق تب خراب ہوگیا جب مشرف نے نے عمران کی بجائے گجرات کے چوہدریوں کو اقتدار دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا مشرف سے مطالبہ تھا کہ وہ انہیں دو تین درجن الیکٹیلبز دے دیں تو وہ الیکشن جیت سکتے ہیں لیکن مشرف کا کہنا تھا کہ وہ پچاس کو تو سو بناسکتے ہیں لیکن دس کو سو نہیں بناسکتے۔ یوں عمران مشرف سے ناراض ہو گئے اور ان کی مخالفت میں وزارت عظمیٰ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ بھی دے دیا۔ لیکن دوسری جانب عمران افغانستان اور طالبان سے متعلق فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ انریکی ڈرون حملوں کے خلاف انکی مہم بھی اس سلسلے کی کڑی تھی اور اور انہیں یہ ڈیوٹی دی گئی تھی۔
صافی کے مطابق جب 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پیپلز پارٹی سے اختلافات شدت اختیار کرگئے اور مسلم لیگ(ن) پہلے سے زیر عتاب تھی تو عمران کی قیادت میں تیسری قوت کھڑی کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ اس دوران لوگ ظاہری بیانات کی بنا پر عمران کو فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن مجھے ذاتی طور پر علم تھا کہ شاہ محمود، جہانگیر ترین اور اس عمر جیسے لوگوں کو کن طاقتوروں نے عمران کا ہم سفر بنایا؟ مجھے یہ بھی علم تھا کہ کس طرح ان کے لاہور اور پنڈی کے جلسے میں ان کا ہاتھ بٹایا گیا اور کس طرح ہمارے ٹی وی چینل سمیت میڈیا کو ان کا معاون اور ہم رکاب بنایا گیا۔ میں چونکہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں، اس لئے جب سے عمران کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا بنایا ہے تب سے وہ میری خصوصی تنقید کا نشانہ ہیں۔ دوسری طرف عمران چونکہ میڈیا کے لاڈلے بنائے گئے تھے اور سلیبرٹی کی زندگی گزارنے کی وجہ سےتنقید سننے کے عادی بھی نہیں تھے، اس لئے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس انہوں نے میری تنقید کو دل پر لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ مجھے چونکہ ان کو صحافت میں آنے سے قبل قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا، اس لئے میں سمجھ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں ایسے نہیں کہ جیسے نظر آ رہے ہیں۔ مثلاً لوگ ان کو بڑا صاحبِ دل سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسے شخص ہیں جن کا دل نہیں ہے۔ لوگ انہیں سچا اور کھرا انسان سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ بھی نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح کے سیاستدان نکلے۔

Back to top button