اسٹیبلشمنٹ کے نئے نظام نمبر 37 میں نواز شریف ان ہیں یا آؤٹ ؟
تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ ملنا، یعنی آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کے جیتنے کے امکانات نے گیم تبدیل کر دی ھے۔ یہ فیصلہ اٹل ہے کہ ، آزاد امیدواروں نے استحکام پاکستان پارٹی میں جاناہے اور استحکام پاکستان پارٹی کا مسلم لیگ ن سے الحاق ہونا ہے۔ مگر نواز شریف کیلئے ایسی سیاست میں ہر گز آسودگی نہ ہوگی۔ نواز شریف کی بڑھتی مقبولیت سے انکو قطعی اکثریت مل گئی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے آخری پلان کے برخلاف ہوگی۔ 76سال میں ھم 32 وزرائےاعظم اور 4 مارشل لا یعنی 36 قسم کے نظام دیکھ چکے ہیں۔ آج ہم نظام نمبر 37آزمانے کو ہیں نواز شریف حکومت لیں یا نہ لیں مملکت کا نظام نمبر 37 ” وکھری ٹائپ ” کا ھو گا ۔ ان خیالات کا اظہار سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ اللّہ خان نیازی نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مگو کی کیفیت ضرور ہے مگر 8فروری کا الیکشن ’’ہونا‘‘ ٹھہر گیا ہے۔ الیکشن کے کا نظام کچھ اس طرز کا ھو گا کہ جسکی ہئیت پہلی دفعہ متعارف ہونی ہے۔ قائد اعظم نے آزادی کے موقع پر مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ بتایا، لیکن ڈکٹیٹروں نے اس کو ’’تاحیات آرمی چیف‘‘ رہنے کی تگ و دو کی پریکٹس فیلڈ بنا ڈالا ۔ انتخابات سر پر ہیں مگر ،ماحول ہی نہیں بن پارہا، ایک بے دلی، بے کیفی، عدم دلچسپی کی کیفیت ہے ۔ عمران خان نے سوشل میڈیا ، مین اسٹریم الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر جس طرح قبضہ جمایا ماضی میں نظیر ڈھونڈنانا ممکن ہے ۔ پی ٹی آئی کے لئے منشور کی اہمیت ھے نہ ہی اپنی نااہل کرپٹ بد ترین حکومت اور وعدہ خلافیوں پر جوابدہی و وضاحت کا کوئی تکلف ۔، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ نے راتوں رات مقبولیت انہیں دے ڈالی۔ مگر اِدھر الیکشن کا اعلان ہوا اُدھر عمران خان کی پارٹی تاش کے پتوں کا گھروندا ثابت ہوئی۔ 9مئی کا واقعہ نہ بھی ہوتا تو نتیجہ آج سے مختلف نہ رہتا۔
حفیظ اللّہ نیازی کہتے ہیں کہ رائے عامہ عمران خان کی پارٹی کو اقتدار میں لانے کی خواہش مند ضرور ہے مگر اس کے لئے ووٹ ۔۔۔ ووٹنگ باکس سے محروم رھیں گے ۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اور اکثر ٹکٹ ہولڈر اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن چکے ہیں اسٹیبلشمنٹ کیلئے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ جیسے ہی پارٹی کو نشان سے محروم کیا گویا کہ عمران خان کا خواب پورا ھو گیا تحریک انصاف کو غلامی سے نجات مل گئی، ’’حقیقی آزادی‘‘ اس کا نصیب بننے کو ہے ۔ ایک سانحہ اور بھی ھونے کو ہے ، وہ یہ کہ جلسے جلوس، لانگ مارچ، تقریری مواد،8 ماہ زمان پارک کے باہر 2ہزار کارکنان کا نان نفقہ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست اگرچہ سب کچھ باجوہ ڈاکٹرائن کے عین مطابق تھا مگر اس سب کی وجہ سے مالی لحاظ سے تحریک انصاف کنگال ہو چکی ہے۔ آدھا الیکشن، پولنگ کے دن ھوتا ہے جس کے لئے کروڑوں روپوں کے حساب سے پیسہ درکار ہے، جو کہ موجود نہیں ہے۔ حفیظ اللّہ خان نیازی نواز شریف کی سیاست پر تبصرے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 10 اپریل 2022 ء کے بعد سے ن لیگ کی سیاست ابدی نیند سو گئی تھی ۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ جھگڑے نے سارے سیاستدانوں کو غیر متعلق بنا دیا۔ اسکے باوجود یہ بات طے تھی کہ جب کبھی الیکشن ہوئے نواز شریف کے علاوہ کوئی اور چوائس ہونی ہی نہیں ہے۔ شروع کے سروے نواز شریف سیاست بارے مایوس کن خبریں دے رہے تھے۔ مگر حال ہی میں IPOR اور بلوم برگ کے سروے سامنے آئے تو بڑے بڑے جغادری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نواز شریف کا گراف اوپر جا رہا ہے، عمران خان کا زعم زمین بوس ہو گیا ۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ 8فروری کا الیکشن نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت رہے ہیں ۔ اگرچہ نواز شریف کی سیاست کے بارے اسٹیبلشمنٹ کے پلان کئی بار پہلے بھی تبدیل ہو چکے ہیں ۔ نواز شریف کے پاکستان قدم رنجا فرما نے سے بہت پہلے ڈنکے کی چوٹ پر کہا گیا کہ ’’آئندہ وزیراعظم نواز شریف نے ہی ہونا ہے‘‘۔ شروع میں نواز شریف کو وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی یقین دہانی کرائی گئی۔ مگر جون میں جیسے استحکام پاکستان پارٹی وجود میں آئی، ملکی سیاست نے ہچکولہ لیا ۔ نواز شریف اور زرداری جون ہی میں دبئی پہنچے اور سر جوڑنے پر مجبور ہو گئے ۔ یکدم پیپلز پارٹی کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحیت آگئی۔ نواز شریف واپس آئے تو 21اکتوبر کو دھاک ضرور بٹھائی مگر عملاً سیاست میں ان کی عدم دلچسپی نظر آئی۔اس دوران حیران کن جوڑ توڑ ھوئے ، سرفراز بگٹی ، قدوس بزنجو ، فیصل واوڈا وغیرہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی کوشش نے سیاست کو نیا رخ دیا یعنی مسلم لیگ ن کو اب وفاق اور پنجاب تک محدود رکھنا تھا ۔ن لیگ کووفاق میں عمران طرز کی مخلوط حکومت ہی ملنی تھی ۔
حفیظ اللّہ نیازی کے مطابق نواز شریف جو اس سے قبل 8بار پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں ، پہلی بار کئی ہفتے ٹکٹوں کے انٹرویو اور میڈیا کے ذریعے پیغام عام کرتے نظر آئے جو ان کی جانب سے وزیراعظم بننے یا حکومت لینے میں عدم دلچسپی واضح کرنے کی ایک واردات تھی۔نواز شریف کی بڑھتی مقبولیت سے انکو قطعی اکثریت مل گئی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے آخری پلان کے برخلاف ہوگی۔ جمع تفریق کے مطابق مسلم لیگ ن کو نوے سے پچانوے، پیپلز پارٹی کو پچاس سے پچپن ، آزاد امیدوار ساٹھ سے ستر ، جبکہ تیس سے پینتیس سیٹیں دیگر پارٹیاں حاصل کریں گی ۔ پہلی دفعہ انوکھا تجربہ ھوگا ، ’’مادر پدر آزاد‘‘ انتخابات کی کوکھ سے ’’مادر پدر آزاد جمہوریت‘‘ نے جنم لینا ہے۔ ’’نظام نمبر 37 ” کا شدت سے انتظار ہے