الیکشن کمیشن وفاقی وزرا کے خلاف کیا کارروائی کرنے والا ہے؟


حکومتی وزراء کی جانب سے خود پر لگائے گئے گئے سنگین الزامات پر تین روز کی سوچ بچار کے بعد بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے دو وفاقی وزرا فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے الزامات کے حق میں ثبوت مانگ لیے ہیں تاکہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس دیے جانے کے بعد اگر دونوں وزرا اپنے الزامات کے ثبوت پیش نہ کر سکے تو کمیشن ان کے خلاف سخت ترین کارروائی بھی کر سکتا ہے چونکہ اسکے پاس عدالتی اختیارات ہوتے ہیں اور بات وزرا کی نااہلی تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
14 ستمبر کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق الیکشن کمیشن کے ایک اہم اجلاس میں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پرحکومتی وزرا کی جانب سے لگائے گےالزامات کو زیر بحث  لایا گیا۔ الیکشن کمیشن  نے ان الزامات کی پُرزور الفاظ میں تردید کی اور انہیں سختی سے مسترد کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ صدر پاکستان اور سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگز کے دوران وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کی طرف سے الیکشن کمیشن پر جو الزامات عائد کیے گئے اُن پر اُن  سے ثبوت مانگنے جائیں۔
اس کے علاوہ  وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے پریس بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر جن الفاظ  میں الزام تراشی کی گئی اُس پر الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دونوں وزرا کو نوٹس جاری کیے جائیں تاکہ اس سلسلے میں مزید کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ الیکشن کمیشن نے پیمرا سے متعلقہ ریکارڈ بھی طلب کر لیا اور حکم دیا ہے کہ وہ ایوان صدر، سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی کی کارروائی اور پریس  بریفنگ سے متعلق  تمام ریکارڈ مرتب کر کے مزید  کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے اعظم سواتی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر کو اپوزیشن کا ’ماؤتھ پیس‘ اور ’آلہ کار‘ قرار دیتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ’چیف الیکشن کمشنر اگر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو میں انہیں دعوت دیتا ہوں وہ عہدہ چھوڑیں اور الیکشن لڑیں۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات کے بعد کپتان حکومت کے وزرا ای سی پی پر حملہ آور ہو گئے تھے اور الیکشن کمیشن پر پیسے پکڑنے کا الزام لگا دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن جواب دے کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کی طرف کیوں نہیں جانا چاہتا اور اس عمل میں روڑے کیوں اٹکا رہا ہے۔ 10 ستمبر کے روز یہ الزامات وزیر ریلوے سینیٹر اعظم خان سواتی نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس کے دوران لگائے جس پر الیکشن کمیشن کے اراکین احتجاجا واک آؤٹ کر گئے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر راجہ سلطان کو ان الزامات سے آگاہ کیا جنہوں نے ان الزامات کا نوٹس لینے کے لیے کمیشن کا اجلاس طلب کیا تھا۔
اس سے پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت سینیٹ میں منعقد ہوا جس کے دوران الیکشن کمیشن کے اراکین اور حکومتی وزرا کے مابین گرما گرمی ہوگئی۔ اس موقع پر بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام صاف، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانا ہے، 2014 میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا حکم دیا، لہازا کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق پر اعتراض نہیں لگا سکتا، انکا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر اعتراض لگا دیا۔
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے یہ اندازہ لگایا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے الیکشن کروانے کے لیے وقت کم ہے؟ انہوں نے کہا کہ فلپائن نے تو اس سے بھی کم وقت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا کیا تھا لہاز کسی مثال کے بغیر تحفظات کا اظہار کرنا کسی آئینی ادارے کے لیے غیر مناسب ہے۔
اسکے بعد وزیر ریلوے سینیٹر اعظم سواتی نے بحث میں حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پارلیمان کا مذاق بنارہا ہے، اس نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں، لہازا الیکشن کمیشن کو آئین سے نکال دینا چاہیے، اور آئینی ترمیم کرکے عام انتخابات کرانے کا اختیار حکومت وقت کو دینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ماضی کے انتخابات میں بھی دھاندلی کراتا رہا ہے اور ایسے ادارے کو تو آگ لگا دینی چاہیے۔ تاہم انکی اس گفتگو پر الیکشن کمیشن حکام کمیٹی اجلاس سے احتجاجا واک آؤٹ کرگئے۔
بعد ازاں اسی روز ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے اور لوگوں کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا کیونکہ یہاں کام کرنے والوں کے سیاسی روابط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشنر میڈیا میڈیا کھیلنا بند کریں، اور اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو وہ استعفی دیں اور الیکشن لڑیں، انکا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس دیے جانے کے بعد اگر دونوں وزرا اپنے الزامات کے ثبوت پیش نہ کر سکے تو کمیشن ان کے خلاف سخت ترین کارروائی بھی کر سکتا ہے چونکہ اسکے پاس عدالتی اختیارات ہوتے ہیں اور بات وزرا کی نااہلی تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

Back to top button