ایم کیو ایم کی ناراضی صرف اسٹیبلشمنٹ دور کر سکتی ہے

تحریک انصاف کی جانب سے ایم کیو ایم کو دوبارہ حکومت کا حصہ بنانے میں بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ مہاجر قیادت کراچی اور حیدرآباد میں اپنے بند کیے گئے دفاتر کھلوانے اور گرفتار کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ پورا کرنا حکومت کے بس کی بات اس لئے نہیں ہے کہ دفاتر دراصل خفیہ ایجنسیوں نے بند کروائے تھے اور جو لوگ گرفتار ہوئے ان پر دہشت گردی کے مقدمات ہیں۔
خفیہ ادارے اور رینجرز تحریک انصاف حکومت کو ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے روکے ہوئے ہیں جس سے کراچی میں دوبارہ دہشت گردی سر اٹھا لے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی وفد اپنی سابق اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو دومرتبہ مذاکرات کے باوجود ان کے سربمہر دفاتر کھولنے اور اسیر کارکنان کی رہائی کے مطالبے پر کوئی یقین دہانی کروانے میں ناکام ہے جبکہ ایم کیو ایم اسی بڑے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ رینجرز اور خفیہ ادارے اس حوالے سے ایم کیو ایم کو کوئی ریلیف دینے کے حق میں نہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ بات کرنے کے باوجود تاحال رینجرز اور خفیہ اداروں نے ایم کیو ایم کے دفاتر ڈی سیل کرنے اور جرائم میں ملوث ایم کیو ایم کے کارکنوں کو رہا کروانے کے حوالے سے کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو سنگین سیاسی بحران کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے دور میں حکومتی وفد کی جانب سے لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلیے کمیٹی کے قیام کی تجویز دی گئی جبکہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے بھی تمام مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر اس کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ نے دوبارہ سے کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے دفاتر کھولنے کے معاملے پر مشاورت کیلیے مزید وقت مانگا ہے۔ ممکنہ طور پر وزیراعظم عمران خان اور سیکیورٹی اداروں کی قیادت کی باہمی مشاورت کے بعد ایم کیو ایم وفد سے دوبارہ ملاقات کی جائے گی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ ایم کیو ایم ہرصورت اپنے دفاتر واپس حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ کراچی اور حیدرآباد پر اس کا کنٹرول رہے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی سیاسی ساکھ بحال کی جائے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں خفیہ اداروں نے تحریک انصاف کی حکومت کی درخواست پر قومی اسمبلی میں اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے مطالبے پر بلوچستان سے گرفتار کیے گئے کئی افراد بشمول خواتین کو رہا کر دیا تھا۔ ایم کیوایم سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف حکومت اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈلوا کر انہیں کراچی اور حیدرآباد میں فری ہینڈ دلوا سکتی ہے مگر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ ایم کیو ایم تحریک انصاف حکومت کا دوبارہ حصہ بنے، اسی لیے تحریک انصاف حکومت کی خواہش کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کوکسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ مگر اس کی بھاری قیمت تحریک انصاف حکومت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے جو ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہے۔
واضح رہے کہ جہانگیر ترین کی سربراہی میں حکومتی وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ڈیڑھ سال سے حکومت صرف یقین دہانیاں کروا رہی ہے، کوئی عملی کام نہیں ہوا، ایم کیو ایم کے کارکنان کو گھر واپس نہیں لاسکتے تو کابینہ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو دفاتر کھولنے کی اجازت نہیں، ترقیاتی فنڈز جاری نہیں ہوئے، ووٹرز کو کیا منہ دکھائیں۔