تاریخ کے مخطوطے میں ترمیم نہیں ہوتی

تحریر : وجاہت مسعود

بشکریہ: روزنامہ جنگ

معمورہ دنیا میں روز اک خرابی چلی آتی ہے۔ اصحاب سبحہ و زنار دست و گریباں ہیں۔ 25 کروڑ خاک نشین اپنے دکھوں کی ستر پوشی میں الجھے ہیں۔ انہیں دستور کی شق 175 (اے) سے واسطہ ہے اور نہ184 (3) سے تعلق ہے۔ انہیں تو منٹو مارلے اصلاحات کے بعد سے دائرے میں بٹھا رکھا ہے کہ تبادلہ، توسیع اور ترمیم کی سہ شاخہ ترشول سے بندگان عالی قدر کی ترقی کا تماشا کیا کریں۔ اگر اس کھیل میں جھریوں بھرے چہروں والی مائیں اور خستہ حال باپ اندھی گولیوں کی زد میں آئے کچھ جگر گوشے کھو بیٹھیں تو انہیں رتبہ شہادت کا وثیقہ تھما کر خاموش کر دیا جائے۔ یاں کے سیاہ و سفید میں ان کا یہی حصہ ہے۔ تعجب ہے کہ اس آئین میں ترمیم پرمناقشہ جاری ہے جس کا پورا متن دو بار کھڑکی سے باہر اچھالا گیا۔ 1985ءمیں پستول دکھا کر دستور کا پارلیمانی تشخص صدارتی کیا گیا۔ 2003ءمیں یہی مشق دہرائی گئی تو ’روشن خیال ‘آمر کے پہلو میں مولانافضل الرحمن ، عمران خان ،علامہ طاہر القادری اور قاضی حسین احمد کھڑے تھے۔ اس آئین میں پارلیمنٹ کی مشکیں کس کر 19ویں ترمیم کرا کے آئینی اداروں میں اختیار اورجواب دہی کا توازن تہ و بالا کیا گیا۔اس دستور کے بارے میں ایک سرکاری ملازم نے دو برس پر محیط مکالمے سے منظور ہونے والی 18ویں ترمیم کو ’چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک‘ قرار دیا ۔ یہ وہی دستور ہے جس کی شق 244 کے تحت حلف اٹھانے والوں کے بارے میں ایک سلیم الطبع صحافی نے اپنے تئیں سینہ گیتی کا عظیم راز فاش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ معمول کے حالات میں ہم سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ہم بھی ہر روز یہ حساب کتاب کرتے ہیں لیکن جب معاملہ سر پہ آجائے تو پھر ہم اور کچھ نہیں سوچتے‘۔کوتاہ نظری کی یہ روایت کچھ اس عہد سے مخصوص نہیں ۔تاریخی شعور سے بے گانگی اور احوال فردا سے لاتعلقی ہماری اجتماعی روایت رہی ہے۔ آئینی ترمیم تو ہوتی رہے گی۔بھلے اس کا مسودہ کوئی لکھے، پارلیمان میں لانے کی بیگار کسی کے حصے میں آئے اور اس پر کسی کا نشان انگوٹھا ثبت ہو ، ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔

1857 ءمیں وادی گنگا اور ممالک اودھ میں کچھ سپاہیوں نے علم بغاوت اٹھا لیا۔ بنگال ، مدراس ، بمبئی ، حیدرآباد ، میسور ، کیرالہ ، گجرات ، کشمیر اور راجپوتانہ اس شورش سے قطعی لاتعلق رہے ۔ خطہ پنجاب کے سکھ سپاہیوں نے جوش و خروش سے کمپنی بہادر کا ساتھ دیا۔ ’جنگ آزادی ‘قرار پانے والے اس مقامی ہنگامے میں برطانوی ہند کی 20 کروڑ آبادی کا بڑا حصہ الگ تھلگ رہا ۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ اگر 1857ءکا آندولن کامیاب ہو جاتا تو ہندوستان پر کس کی حکومت قائم ہوتی۔ بندوبست حکومت کی صورت کیا ہوتی؟ فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیر کی کہانی میں اس امکان کی کچھ تصویر کشی کی ہے جسے ہم نے نصاب سے خارج کر رکھا ہے ۔ ہمیں تو ظہیر دہلوی کی ’داستان غدر‘ اور حسن نظامی کی تصنیف ’بیگمات کے آنسو‘ پسند ہیں۔سرسید احمد خان نے 1875 ءمیں مدرسہ علی گڑھ قائم کر کے وہی کام کیا جو رام موہن رائے 1810سے کر رہے تھے۔ سرسید احمد خان کی مساعی پر ان کے ہم عصر اہل دانش نے جو ناوک دشنام برسائے وہ ہماری اجتماعی دانش پر دال ہیں۔ تعلیم یافتہ بنگال میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور سے خائف حکومت انگلشیہ نے تقسیم بنگال کا ڈول نہ ڈالا ہوتا تو کیا 1906ءمیں مسلم لیگ قائم ہوتی؟ کیا ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر سیاسی آویزش کا ’جداگانہ طریق انتخاب ‘ سے بہتر کوئی نسخہ ہو سکتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کی تفصیل ہمارے فلک کو معلوم نہیں تھی لیکن ہم نے تحریک خلافت چلائی ۔ ’خلافت پر جان دینے ‘کا سبق بھی ہمیں پڑھایا گیا اور خلافت ختم کرنے والے مصطفی کمال پاشا کی بلائیں بھی ہم نے لیں ۔ ہندوستان کے ’دارالحرب ‘سے افغانستان ہجرت کرنے والوں کا انجام بتانے سے ہمیں حجاب آتا ہے۔ سمرنا کے بچوں کی چیخ و پکار ہمارے نعروں میں شامل رہی ، یہ نہیں جانتے کہ ستمبر 1922 میں سمرنا کا شہر کس نے نذرآتش کیا۔ ہماری تاریخ میں وہ صفحہ کیوں غائب ہے جہاں جداگانہ انتخاب پر جناح اور اقبال کے اختلاف سے شفیع لیگ نے جنم لیا تھا۔ 1935 کا کمیونل ایوارڈ ہندوستان میں مذہبی تقسیم کو قانونی جواز فراہم کرنے کی دستاویز تھا۔ اس دوران لاہور کے ایک ’قومی صحافی‘ نے انتخابی ضرورت کے تحت نیلی پوش تحریک بنائی تھی۔ ہم نے سوال کیا کہ شہدائے مسجد شہید گنج کے خون کا سودا کس نے کیا۔

تحریک خلافت سے مجلس احرار کیوں الگ ہوئی۔ جمعیت علمائے ہند سے جمعیت علمائے اسلام کی قلم کس نے لگائی۔ 1937ءکے انتخابات میں پنجاب کی 75 مسلم نشستوں میں سے 73یونینسٹ پارٹی نے جیتی تھیں۔ 1946ءمیں مسلم لیگ نے پنجاب میں جھاڑو پھیر دیا۔ کامیاب ارکان کی فہرستیں آمنے سامنے رکھ کر دیکھئے کہ 1937ءکے کتنے یونینسٹ ارکان 1946ءمیں مسلم لیگ کا حصہ بن چکے تھے۔ کچھ روز قبل قائداعظم کی 11اگست کی تقریر پر مولاناشبیر عثمانی کی مخالفت کا ذکر ہوا تو اصحاب جبہ و عمامہ تلملا اٹھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی مرتبہ ’احتشام الحق تھانوی کی آپ بیتی‘ دیکھی جس میں احتشام تھانوی صاحب کی قائداعظم کی مذکورہ تقریر پر سخت تنقید شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ کالم کا صفحہ نبڑ جائے ایک آخری سوال۔قیام پاکستان کے فوراً بعد چار نام سامنے آئے۔ چوہدری محمد علی، غلام محمد ، اسکندر مرزا اور محمد علی بوگرہ۔ صرف یہ بتا دیا جائے کہ ان کا تحریک آزادی یا مسلم لیگ سے کیا تعلق تھا؟ اسی فہرست میں ایک پیر تسمہ پا مشاق احمد گورمانی بھی تھا۔ صرف یہ بتا دیجئے کہ اگست 1947ءسے پہلے نواب بہاولپور کے وزیر مشتاق گورمانی کا مسلم لیگ میں کیا حصہ تھا۔یہ سوالات 1857ءسے 1947 کے نوے برس کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد گزرنے والی پون صدی کے سوالات آئندہ نشست میں۔ فی الحال آپ مجوزہ آئینی ترمیم کے زیرگردش مسودات پر غور فرمائیں۔

نئی پارٹی پوزیشن

Back to top button