تحریک طالبان کو دوبارہ شہروں کا رخ کرنے سے کیسے روکنا ہے؟

اسلام آباد میں تحریک طالبان پاکستان کے خودکش حملے کے بعد اب کوئی شک نہیں رہنا چاہئے کہ دہشت گردی کی آگ صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہے گی اور اگر اسے روکا نہ گیا تو 2014 جیسے خونی مناظر دوبارہ بڑے پاکستانی شہروں میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں گھس کر سوا سو سے زائد معصوم بچوں کو قتل کر دیا تھا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف صحافی سلیم صافی کہتے ہیں کہ تحریک طالبان کے خود کش بمبار کا اسلام آباد تک پہنچ جانا ہمارے ریاستی اداروں کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے افغان اور پاکستانی طالبان سے متعلق مفروضوں اور خواہشات پر مبنی ایک پالیسی بنائی تھی۔ پھر ریاستی مشینری کو بروئے کار لاکر دائیں بازوں کی جماعتوں، تحریک انصاف اور دفاعی تجزیہ کاروں کے ذریعے اس غیر حقیقی پالیسی کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ ہر پاکستانی اس مفروضے پر یقین کرنے لگا۔
وہ مفروضہ یہ تھا کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور ٹی ٹی پی کو ”را“ اور افغان انٹیلی جنس نے تخلیق کیا ہے۔ کچھ لوگ اسے امریکہ کے کھاتے میں ڈال رہے تھے حالانکہ ٹی ٹی پی کے تمام امیر امریکی ڈرون حملوں میں نشانہ بنے۔ ہمارے ریاستی اداروں نے مفروضے پر مبنی ہے یہ چورن بھی برس ہا برس بیچا کہ جب افغانستان میں ہمارے دوست طالبان کامیاب ہو جائیں گے تو ٹی ٹی پی کا خودبخود خاتمہ ہوجائے گا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا جشن دنیا کے جس واحد ملک میں منایا گیا، وہ پاکستان تھا۔ تب کے وزیراعظم عمران خان نے ارشاد فرمایا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ پاکستانی میڈیا جشن منانے کے لیے کابل پر یوں حملہ آور ہوا جیسے امریکی حملے کے بعد مغربی میڈیا فاتحانہ انداز میں وہاں جا پہنچا تھا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے دوسری غلطی یہ کی کہ ماضی میں بھی جب ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا تو اسکو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا گیا۔
آپریشنز کے ذریعے ٹی ٹی پی کو وقتی طور پر دبایا گیا تھا یا پھر افغانستان میں دھکیل دیا گیا لیکن یہ فقرہ تکیہ کلام بنا دیا گیا کہ ہم نے ”دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے“۔ صافی کہتے ہیں کہ حقیقت میں کمر تو کیا ان سے ٹی ٹی پی کی ٹانگ بھی نہیں توڑی گئی تھی۔ ہاں یہ ضرور ایک حقیقت ہے کہ تحریک طالبان کو اصل نقصان امریکی ڈرون حملوں نے پہنچایا تھا اور ان کی لیڈرشپ میں سے کسی ایک کو بھی ملٹری آپریشنز کے دوران نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔ نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ، سب کے سب ڈرون حملوں میں نشانہ بنے۔ افغان فضاؤں میں ہمہ وقت امریکی ڈرونز کی موجودگی کی وجہ سے ہی ٹی ٹی پی کی قیادت کا آپس میں رابطہ مشکل ہوگیا تھا۔ تاہم افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ڈرون حملوں کا خطرہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اب بھی اگر امریکہ کسی کو نشانہ بناتا ہے تو وہ پاکستان کا نہیں بلکہ اس کا اپنا کوئی دشمن ہوتا ہے۔ افغانستان میں آخری امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو کابل میں ہلاک کیا تھا۔
سلیم صافی کے مطابق سوال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ٹی ٹی پی دوبارہ اتنی قوت کے ساتھ کہاں سے اور کیسے نمودار ہوئی ہے؟ اس کی پہلی وجہ بیان کرتے ہوئے صافی کہتے ہیں کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک جیسے عقائد اور نظریات کے حامل ہیں۔ ان کے جہاد و قتال کے تصورات ایک ہیں۔ پاکستانی طالبان نے بندوق ،افغان طالبان کی حمایت یا اقتدا میں اٹھائی۔ ان کے اکابر کو اپنے اکابر اور انکے امیر المومنین کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ طالبان نے مسلح جدوجہد کے ذریعے امریکہ اور نیٹو جیسی طاقتوں کو شکست دے دی تو فطری طور پر پاکستانی طالبان اور دیگر مذہبی عسکری طاقتوں کا مورال بھی بلند ہوگیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔عبدالولی عرف خالد خراسانی کی قیادت میں جماعت الاحرار کے نام سے انہوں نے ایک الگ گروپ بنایا تھا۔ کرم ایجنسی والے حافظ سعید داعش میں چلے گئے تھے۔ مفتی نور ولی چونکہ قبائلی محسود بھی ہیں اور پڑھے لکھے سمجھدار مفتی بھی ہیں، اسلئے ٹی ٹی پی امیر بن جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف تمام دھڑوں کو دوبارہ متحدہ کیا بلکہ کئی نئے گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل کروا دئیے۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
صافی کے بقول دوسری طرف عمران خان کے سارے دور حکومت میں اس ایشو کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جبکہ موجودہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں بھی یہ ایشو بہت پیچھے رہا۔ حالانکہ گزشتہ سال کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ ٹی ٹی پی نے پختونخوا میں کوئی نہ کوئی کارروائی نہ کی ہو۔ صافی کے بقول تحریک طالبان کے دوبارہ طاقت بڑھنے پکڑنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں اور انکے ساتھی مفروضہ ساز تجزیہ کاروں نے پاکستانیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ ٹی ٹی پی کو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ چار ہزار کے قریب ٹی ٹی پی کے کارکن جن میں باجوڑ کے مولوی فقیر محمد جیسے اہم رہنما بھی شامل تھے، افغان جیلوں میں بند تھے اور جب افغان طالبان نے وہاں کی جیلیں توڑ دیں تو یہ لوگ بھی رہا ہوکر دوبارہ ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہوکر فعال ہوگئے۔
اسکی علاوہ گزشتہ سالوں کے دوران پاکستانی طالبان کنڑ، نورستان، پکتیا ،ننگرہار اور خوست صوبوں کے غاروں اور پہاڑوں میں پناہ لئے ہوئے تھے لیکن طالبان کی فتح کے بعد انہیں پورا افغانستان میسر آگیا، اب وہ اکٹھے ہو کر آزادی کیساتھ آپس میں بیٹھ کر مشاورت اور منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ طالبان کے ایک بڑی تعداد حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد سے قبائلی اضلاع اور سوات جیسے علاقوں میں بھی واپس آ گئی یے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کے کارکن یا ہمدرد سلیپر سیلز کی صورت میں موجود تھے لیکن قیادت کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاموش بیٹھے تھے۔ افغان طالبان کی فتح کے بعد وہ بھی افغانستان منتقل ہوئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ دوبارہ فعال ہوگئے۔ اس کے علاوہ امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کے وسائل میں بھی کافی اضافہ ہوگیا اور امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار بھی ان کے ہاتھ لگ گئے کیونکہ جن علاقوں میں ٹی ٹی پی موجود تھی یا مزاحمت کر رہی تھی، وہاں کا مال غنیمت ٹی ٹی پی کے حصے میں آیا۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا اور وہاں پر طالبان کی امارات اسلامی کے آغاز کے بعد ٹی ٹی پی کا معاملہ نہایت تدبر اور حکمت کا تقاضا کررہا تھا لیکن عمران کی حکومت کے دوران بہت عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے لیول پر ٹی ٹی پی سے براہ راست نام نہاد امن مذاکرات کئے گئے جن میں ایسے وعدے بھی کر کیے گئے جنہیں پورا کرنا ناممکن تھا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی المیہ یہ رہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ پشاور کے کور کمانڈر فیض حمید اور عمران کی پختونخوا حکومت کے سپرد رہا اور وفاق کو اس سے لاتعلق رکھا گیا۔
اب بھی اس معاملے میں وزیراعظم، وزیرخارجہ اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ جیسی حکومتی شخصیات اور صوبائی حکومت کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ۔تازہ ترین مثال بنوں میں سی ٹی ڈی سینٹر کی ہے۔ وہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور کئی دیگر قیدی یرغمال تھے ۔ مختصر یہ کہ ہمارے حکمران اور سیاسی طبقات اس معاملے کو بہت ہلکا لے رہے ہیں بلکہ اسے صرف لااینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھ کر فوج اورپولیس کے سپرد کررکھا ہے لیکن بقول صافی، یہ مسئلہ نہایت گمبھیر ہے جو بھرپور سیاسی اور سفارتی کوششوں اور مختلف حکومتوں اور اداروں کے مابین ہم آہنگی لانے کا تقاضا کرتا ہے۔