عمران خان کی آستینوں میں کون سے زہریلے سانپ چھپے ہوئے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان اور اس کی فوجی قیادت کے خلاف نفرت انگیز زہریلی مہم چلانے والا عمران خان کا سوشل میڈیا بریگیڈ ہی کپتان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت امیز مواد کے ذریعے ڈالرز کمانے والے یہ لوگ عمران خان کو ایک ایسے انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں جس کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ جتنا جلدی عمران خان اپنے ان ’’ہمدرد‘‘ دشمنوں کو پہچانیں گے اُتنا ہی اُن کو فائدہ ہو گا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ’’ہمدرد‘‘ یوٹیوبرز کے ڈالرز اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے لائیکس کا تعلق عمران خان اور فوج کی لڑائی سے ہے۔ اگر یہ لڑائی چلتی رہتی ہے تو ان یوٹیوبرز کو ڈھیروں ڈالرز ملتے رہیں گے جبکہ آگ بھڑکانے والی سوشل میڈیا پوسٹس بھی وائرل ہوتی رہیں گی۔ لیکن درحقیقت  یہ لوگ عمران خان کے اصل دشمن ہیںبجن کا فائدہ عمران خان کو جیل میں رکھنے میں ہے، ان کا نفع عمران خان کو فوج سے لڑانے میں ہے۔ اگر عمران خان جیل سے رہا ہو کر باہر آ جائے تو سوشل میڈیا بریگیڈ چلانے والے تحریک انصاف کے تمام ہمدرد یوٹیوبرز کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان اور فوج کی لڑائی ختم ہو جائے تو سوشل میڈیا پر فوج مخالف نفرت کا بیانیہ بیچنے والوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ سینیئر صحافی سوال کرتے ہیں کہ کتنے ہی یوٹیوبر ایسے ہیں جنہوں نے اس لڑائی میں عمران کا ’’ہمدرد‘‘ بن کر اپنا کاروبار چمکایا ہے۔ اس ’’چمک‘‘ کو دیکھ کر کتنے نئے سے نئے یوٹیوبر سامنے آئے اور خوب ڈالر کمانے لگے۔ جنکی سوشل میڈیا پوسٹ کو کوئی دیکھتا نہیں تھا اُنہوں نے بھی عمران خان کو خوب کیش کیا اور خان کے ہمدرد بن کر اپنے فالورز کو خوب بڑھایا۔ جس سوشل میڈیا کو عمران خان اپنی طاقت سمجھتے تھے اُس نے عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ عمران کے نام نہاد ہمدردوں نے انہیں سیاسی طور پر جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ انہیں اب تک نہیں ہو پایا۔ علی امین گنڈاپور، سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر علی خان اور دوسرے کئی پی ٹی آئی رہنمااسی سوشل میڈیا اور ’’عمران خان ہمدرد‘‘ یوٹیوبرز کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اکثر رہنماؤں کا بھی یہ خیال ہے کہ ایسے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے نہ تو عمران خان اور نہ ہی ہی تحریک انصاف کیلئے کسی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ عمران خود بھی چاہتے ہیں کہ اُنکے فوجی قیادت سے مذاکرات ہوں تاکہ تحریک انصاف کو سیاست میں اُس کی اصل جگہ مل سکے، اُن سمیت پارٹی رہنماوں کے خلاف درج مقدمات کا خاتمہ ہو، اور پارٹی کی مشکلات کم ہوں۔ اس مقصد کیلئے عمران نے علی مین گنڈاپور اور اعظم سواتی سمیت کچھ پارٹی رہنماوں کو فوج سے رابطے بحال کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ لیکن جب کوئی اس طرف قدم بڑھاتا ہے تو تحریک انصاف کے ’’ہمدرد‘‘ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا فوج مخالف پراپیگنڈا تیز کر کے عمران اور فوج کے درمیان لڑائی میں آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر جاتا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں حال ہی میں امریکا سے ڈاکٹروں اور کاروباری شخصیات کا ایک وفد اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم نمائندےسے ملاقات کرنے کے بعد عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملا۔ اس وفد کے دورے کا مقصد عمران خان اور فوج کے درمیان لڑائی کا خاتمہ تھا لیکن ’’ہمدرد‘‘ یوٹیورز اور سوشل میڈیا نے اس وفد کے ارکان کی ایسی کی تیسی کر دی۔ مقصد وہی ہے کہ فوج اور عمران خان کے درمیان لڑائی کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے پہلے بھی عمران خان سے بات کی اور اب بھی وہ بانی چیئرمین سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ عمران خان اشتعال پھیلانے والے اور آگ بھڑکانے والے ’’ہمددر‘‘ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کو خود شٹ اپ کال دیں۔ عمران خان نے مشوروں کے باوجود اب تک ایسا نہیں کیا اور اپنی مشکلات میں خود ہی اضافہ کرتے رہے۔ عمران کے یہ ’’ہمدرد‘‘ خود یا تو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں یا پھر دوسرے ناموں سے یا بیرون ملک بیٹھ کر فوج اور فوجی قیادت اور پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنا کر عمران خان کو ایک ایسے انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں جس کا کہیں کوئی نام ونشان نہیں۔ جتنا جلدی عمران خان اپنے ان ’’ہمدرد‘‘ دشمنوں کو پہچانیں گے اُتنا ہی اُن کو فائدہ ہو گا۔

Back to top button