تیسری جنگ شروع ہوئی تو انسان دور، پرندہ بھی نہیں زندہ بچے گا
سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر پاکستان اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے امریکی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا یے کہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد امریکہ اور مغرب کو سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا ورنہ تیسری عالمی جنگ آپ کے سر پر کھڑی ہے۔ اگر یہ جنگ شروع ہو گئی تو اتنے ایٹم بم چلیں گے کہ انسان تو دور کی بات کوئی پرندہ بھی باقی نہ بچے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ دراصل تیسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو اسے ختم کروانے کےلیے بھی کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ یکم اکتوبر کو ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش سے قبل ہی امریکہ کے صدارتی الیکشن کی مہم میں تیسری عالمی جنگ کا تذکرہ شروع ہو چکا ہے۔ 25 اگست کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر جوبائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اس کے بعد 27 ستمبر کو اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ پر حملہ کیا اور یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر دو سو میزائل فائر کر دیئے ۔ایران نے اسرائیل پر حملوں کا وہی جواز پیش کیا ہے جو اسرائیل نے غزہ پر بمباری کے بعد پیش کیا تھا۔ اسرائیل نے غزہ اور لبنان پر جب بھی حملہ کیا تو یہ کہا کہ ہم تو اپنا دفاع کر رہے ہیں ۔ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل داغ کر کہا کہ ہم نے عالمی قوانین کے تحت اپنے دفاع میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو آپ کو صرف فلسطین، لبنان او رشام میں نہیں بلکہ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں۔یوکرائن میں روس اور امریکہ کی لڑائی جاری ہے جب کہ فلسطین ،لبنان اور شام میں اسرائیل کا مقابلہ ایران سے ہے۔ اسرائیل کے پیچھے امریکہ اور نیٹو کھڑا ہے جب کہ ایران کے پیچھے روس اور چین کھڑے نظر آتے ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ یوکرائن سے فلسطین اور لبنان تک جنگ ختم کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے لیکن اقوام اس دور کا ایک عظیم مذاق بن چکی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل فلسطین اور کشمیر کے تنازعات پر بار بار قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن آج تک اپنی کسی ایک قرارداد پر بھی عمل نہیں کرواسکی۔اقوام متحدہ اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام رہی جس کے بعد اسرائیل نے لبنان اور شام پر بھی حملے کر دیئے ۔جواب میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اگر اس جنگ میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی مدد کےلیے کود گئے تو پھر روس اور چین کو ایران کی مدد سے کون روکے گا؟اگر ایک کے بعد ایک محاذ کھلتے گئے تو پاکستان کےلیے بڑی مشکل ہو جائیگی۔ پاکستان ایک طرف ایران کا ہمسایہ ہے دوسری طرف چین کے بھی قریب ہے لیکن آئی ایم ایف سے امداد کےلیے پاکستان کو امریکہ کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اسرائیل اور ایران کی حالیہ کشیدگی میں ایران کےساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان توانائی کے شدید بحران سے بھی دوچار ہے اور پاکستان کی حکومت ایران سے سستے نرخوں پر گیس خریدنا چاہتی ہے لیکن امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان یہ گیس نہیں خرید رہا ۔اگر مستقبل قریب میں پاکستان اپنی سیاسی و معاشی مجبوریوں کے باعث ایران کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے امریکہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اپنی ناراضی کا براہ راست تو اظہار نہیں کرے گا لیکن اس کام کےلیے بھارت کو استعمال کر سکتا ہے ۔
حامد میر نے کہا کہ بھارت جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا نیا محافظ ہے۔ بھارت کو استعمال کرنا امریکہ کو مہنگا بھی پڑسکتا ہے کیوں کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں تناؤ ہے ۔تازہ مثال بنگلہ دیش کی ہے جہاں کی سیاست میں براہ راست مداخلت کے باعث بھارت کے خلاف نفرت عروج پر ہے ۔بھارت نے بنگلہ دیش میں وہی غلطی کی جو پاکستان نے افغانستان میں کی آج بھارت کو بنگلہ دیش میں انہی مشکلات کا سامنا ہے جو پاکستان کو افغانستان میں درپیش ہیں لیکن پاکستان کےلیے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ پاکستان کو ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور امریکہ کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر مشرق وسطیٰ میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے ۔امریکہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی بے جا حمایت اس کےلیے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بہت زیادہ مشکلات پیدا کریگی۔اگر امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر جوابی حملہ کیا تو اس کا فوری نتیجہ امریکہ اور مغرب کے خلاف نفرت کی نئی لہر کی صورت میں نکلے گا۔پاکستان سے لے کر بنگلہ دیش تک اور اردن سے مصر تک مسلمان ممالک کی حکومتوں کےلیے ایران کی حمایت مجبوری بن جائے گی۔ اگر امریکہ نے ایران کی حمایت کرنے والوں پر اقتصادی پابندیوں کےلیے اقوام متحدہ کو استعمال کیا تو اس جنگ میں اقوام متحدہ تباہ ہو جائے گی۔ مسلمان ممالک میں اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں کی اہمیت ختم ہوچکی ہے ۔
حامد میر کہتے ہیں کہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد امریکہ اور مغرب کو سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا ورنہ تیسری عالمی جنگ آپ کے سر پر کھڑی ہے۔ یہ جنگ ایک دفعہ شروع ہو گئی تو اتنے ایٹم بم چلیں گے کہ انسان تو دور کی بات کوئی پرندہ بھی باقی نہ بچے گا۔