جسٹس عیسیٰ کیس: نئی نظرثانی درخواست دائر کرنے سے قبل سپریم کورٹ رولز کو غلط پڑھا گیا

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نئی نظرثانی درخواست واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق نے پانچ درخواستیں دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رولز 1980 کو غلط پڑھا ہے۔
اپنے حکم میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا ہے کہ نظرثانی درخواست میں آئین کے آرٹیکل 184 (3)، 187، 188 اور 189 کے تحت ‘ازخود’ کارروائی کے لیے معلومات فراہم کی گئی ہے، جسے سپریم کورٹ رولز کے آرڈرز 26 اور 33 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔درخواست گزاروں میں صدر مملکت، وزیر اعظم، وزیر قانون و انصاف، وزیر اعظم کے مشیر شزاد اکبر اور وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) شامل ہیں۔اپنے اعتراض میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ دوسری نظرثانی درخواست کے مانند ہے، اس لیے یہ سپریم کورٹ رولز کے آرڈر 36، رول 9 کے تحت قابل سماعت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی نظرثانی درخواست نمٹائے جانے کے بعد عدالت میں مزید کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔دوسری جانب پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین خوشدل خان اور پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین محمد فہیم ولی نے حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں 26 اپریل کے حکم کے خلاف دوسری نظرثانی درخواست دائر کرنے پر متنبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کے اس اقدام کے خلاف قانونی برادری ملک گیر احتجاج میں بالکل نہیں ہچکچائے گی’۔خوشدل خان اور فہیم ولی نے حکومت نے نئی نظرثانی درخواست دائر کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار آفس نے درست اعتراضات اٹھائے ہیں۔اپنے بیان میں پاکستان بار کونسل نے الزام لگایا کہ صدر، وزیر اعظم اور وفاقی وزیر قانون کا کردار اور سرگرمیاں عدلیہ کی آزادی اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔بار کونسل نے کہا کہ وہ حکومت کو آزاد عدلیہ کو ہدف بنانے کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔رجسٹرار آفس نے اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ درخواستوں کے عنوان میں ‘ازخود نوٹس’ لکھا تھا، لیکن مضمون کے کالم میں اسے ‘نئی نظرثانی درخواست’ کہا گیا۔حکومت نے پانچ درخواستوں کے ساتھ ایک الگ درخواست دائر کی تھی جس میں پیپر کتابیں فائل کرنے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا کی گئی تھی، تاہم ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد رجسٹرار نے درخواستوں میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔اس کے علاوہ درخواستوں کے متعدد صفحات پر پانچ بار تضحیکی زبان استعمال کی گئی تھی۔رجسٹرار آفس نے کہا کہ درخواست گزار، درخواستیں دائر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت فریقین کو نوٹسز ٹھیک طریقے سے جاری کرنے میں ناکام رہا اس لیے مزید وقت دینے کی استدعا منظور نہیں کی جاسکتی۔