الطاف حسین کی قائد تحریک سے قائد ذلت بننے کی کہانی

حکومت پاکستان کی شکایت پر لندن میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنے والے الطاف حسین نے ایم کیو ایم کا لندن میں واقع سیکرٹریٹ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الطاف حسین نے حکومت پاکستان کی طرف سے دائر دہشت گردی پر اکسانے کے الزام میں اولڈ بیلی کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کی سماعت کے آغاز سے قبل ہی ایم کیو ایم لندن سیکرٹریٹ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے دفتر کی قیمت 10 لاکھ پاؤنڈ مقرر کی ہے جس میں6 کاریں پارک کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن گزشتہ دو ماہ کے دوران ابھی تک انہیں کوئی اچھی آفر نہیں ملی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی تقریباً چار ماہ بعد اولڈ بیلی کی عدالت میں لگنے والے مقدمے کی سماعت کے لیے بھاری اخراجات کا بندوبست کرنے کےلیے دفتر فروخت کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ الطاف حسین برطانیہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں بہت کم شخصیات ایسی ہوں گی جن سے بیک وقت اتنی محبت اور اتنی نفرت کی گئی ہو جتنی کہ الطاف حسین سے کی جاتی ہے۔
ایک طرف تو کراچی کی مہاجر برادری کا بڑا حصہ انہیں اپنا نجات دہندہ اور مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقے کے حقوق کا رکھوالا سمجھتا ہے، تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں الطاف حسین کے ہاتھ ہزاروں لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
17 ستمبر 1953 کو کراچی میں پیدا ہونے والے الطاف حسین نے کراچی کی سیاست میں مہاجر قومیتی کا کارڈ کھیلا اور لفظ ’مہاجر‘ کو سیاسی مہم کا حصہ بنا لیا۔ 1984 سے 22 اگست 2016 سے کراچی کا یہ بے تاج بادشاہ شہر کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا جس کے ایک اشارے پر مجمعے پر سکتا طاری ہوجاتا اور ہڑتال کی کال پر لمحوں میں پورا شہر بند ہوجاتا۔
تاہم جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ 22 اگست 2016 کو الطاف کی ایک پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے ایک ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کر دیا، یہ ہی وہ تاریخی لمحہ تھا جس دن الطاف کی سیاسی موت واقع ہوئی، 23 اگست کو فاروق ستار سمیت پوری جماعت نے ایک پریس کانفرنس میں الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی ملک دشمن تقریر کی پاداش میں ان خی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی، تب سے ان کا نام لینا بھی پاکستانی میڈیا پر ممنوع ٹھہرا ہے انہیں ’بانیِ ایم کیو ایم‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کا چہرہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر نہیں دکھایا جا سکتا۔
الطاف پر پابندیوں کے بعد ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان۔ ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی اور اس کے کارکن زیرِ زمین چلے گئے، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ آج حالات یہ ہیں کہ الطاف حسین ذاتی اور سیاسی مستقبل تاریک ہے اور اس کو ڈاکٹر عمران فاروق قتل سمیت لوگوں کو دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات میں مقدمات کا سامنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button