شہزاد اکبر کے بعد کپتان کے احتسابی نعرے کا مستقبل کیا ہے؟

پچھلے ساڑھے تین برس سے کپتان حکومت میں طاقت ور ترین مشیر احتساب کا کردار ادا کرنے والے شہزاد اکبر کی ناکامی کے بعد چھٹی ہو جانے پر اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے عمران خان کے انتخابی نعرے کا اب کیا مستقبل ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کی چھٹی سے عمران خان کا احتساب کا نعرہ بھی ٹھس ہو گیا ہے کیونکہ کپتان حکومت میں شرلاک ہومز کہلانے والے شہزاد احتساب کے ’پوسٹر بوائے‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ شہزاد اکبر کا آخری دعویٰ یہ تھا کہ سال 2022 شہباز شریف کو سزا سنائے جانے کا سال ہے۔ تاہم ایسا ہونے سے پہلے ہی عمران خان نے شہزاد اکبر کو ناکام ڈکلئیر کر کے سزا سناتے ہوئے کابینہ سے فارغ کر دیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے شہزاد اکبر کو فارغ کرنا دراصل ان کی جانب سے اپوزیشن قیادت کے احتساب میں ناکامی کا اعتراف ہے۔ یوں اب اپوزیشن کا یہ دعوی سچ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کہ عمران خان کی حکومت نے احتساب کی آڑ میں حزب اختلاف کی قیادت پر جو الزامات عائد کیے تھے ان میں کوئی وزن نہیں تھا اور نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔

شہزاد اکبر کی فراغت پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ان کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے کیونکہ وہ بار بار کے دعوؤں کے باوجود نہ تو شہباز شریف کو سزا دلوا سکے اور نہ ہی نواز شریف کو پاکستان واپس لا سکے۔

دوسری جانب سے شہزاد اکبر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں دل و جان سے پوری کیں لیکن عدالتوں سے سزا دلوانا ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ تاہم کپتان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں شریفوں کو سزا دینے میں ناکام رہیں تو اسکی بنیادی وجہ ثبوتوں کی عدم فراہمی تھی جو کہ شہزاد اکبر کی ذمہ داری تھی، ویسے بھی وہ وزیر اعظم کو بار بار یہی بتاتے رہے کہ ان کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر عدالتیں شریفوں کو سزا سنا دیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب آخری ملاقات میں وزیراعظم نے شہزاد اکبر کو وہ ثبوت مہیا کرنے کے لیے کہا تو پتہ چلا کہ وہ انہیں ماموں بنا رہے تھے، لہذا ان سے فوری طور پر استعفی مانگ لیا گیا۔

یاد رہے کہ جب 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت تشکیل پائی تو وزیر اعظم عمران خان نے ’این آر او نہیں دوں گا‘ اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے اعلان کے ساتھ سابق حکمرانوں کے احتساب کا نعرہ لگایا رھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں مرزا شہزاد اکبر کو احتساب کے لیے مشیر بنایا اور انھی کی سربراہی میں ایسٹ ریکوری یونٹ قائم کیا گیا۔

شہزاد اکبر کی سربراہی میں ایسٹ ریکوری یونٹ نے اندرون اور بیرون ملک ان اثاثہ جات کو ڈھونڈنے کا کام شروع کیا جو پاکستانیوں نے اپنے بجائے اپنے اہل خانہ یا کسی اور کے نام پر بنا رکھے تھے۔ایسٹ ریکوری یونٹ نے شہباز اور جہانگیر ترین سمیت متعدد افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے مبینہ ثبوت بھی جمع کیے اور نیب اور ایف آئی اے کو فراہم کیے۔ لیکن ان ثبوتوں کو عدالتوں نے ناکا فی قرار دے دیا اور ایسٹ ریکوری یونٹ کسی بھی اپوزیشن رہ نما کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

یاد رہے کہ شہزاد اکبر کے ایسٹ ریکوری یونٹ نے بیرون ملک اپوزیشن رہنماؤں کی مبینہ جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کے ثبوت حاصل کرنے کے لیے فیسوں کی مد میں کروڑوں روپے لٹائے۔ عمران خان کی خواہش پر شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی تحقیقات کیں اور ان کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا۔ اس ریفرنس میں صدر عارف علوی نے یہ الزام عائد کیا کہ فاضل جج نے 2011 اور 2015 کے دوران اپنی بیوی اور بچوں کے نام لندن میں تین جائیدادیں لیز پر حاصل کیں، جس کو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

جسٹس فائزعیسیٰ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان جائیدادوں کے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بینیفشل اونر نہیں ہیں۔ فائز عیسیٰ نے ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور موقف اپنایا کہ طاقت ور ریاستی عناصر کسی بھی صورت میں ان کو ان کے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ صدر علوی نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی۔  ان کا یہ موقف درست ثابت ہوا اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے حکومتی ریفرنس کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس دوران ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بھی تحفطات کا اظہار کیا گیا۔

تحریک عدم اعتماد سے فرار اپوزیشن کیلئے بڑا دھچکا قرار

ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی اس وقت بھی سوالیہ نشان بن گئی جب برطانوی کرائم ایجنسی اور پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان تصفیے کے حل کے نتیجے میں برطانیہ نے حاصل ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈز کی رقم پاکستان کو منتقل کی۔ اس کی تصدیق خود شہزاد اکبر نے گفتگو میں کی تھی لیکن چند روز بعد یہ خبر سامنے آئی کہ وہ رقم سپریم کورٹ میں ملک ریاض پر عائد جرمانے کی مد میں حکومت کی جانب سے ادا کر دی گئی ہے۔ جس پر کہا گیا کہ حکومت نے سرکار کے وسائل خرچ کرکے حاصل کی گئی رقم سے ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا ہے۔

 شہزاد اکبر نے اپنے دور میں جس شخصیت کو سب سے زیادہ نشانے پر رکھا وہ شہباز شریف تھے جن کے بارے میں وہ کم و بیش ہر دوسرے ہفتے پریس کانفرنس کرتے اور ان کی مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیلی ٹرانسفر سے متعلق الزامات  عائد کرتے۔ ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب مانگے اور تقریباً ہر دوسری پریس کانفرنس میں ان کا ذکر کرتے تھے۔

برطانوی عدالت میں میں نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے شہباز شریف کے منجمند اثاثے بحال کرنے اور انہیں کلین چت دینے کا فیصلہ سامنے آیا تو شہزاد اکبر کو کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاملے پر بھی وزیراعظم عمران خان شہزاد اکبر پر کافی برہم ہوئے تھے۔

اسی طرح براڈ شیٹ کیس کے معاملے پر شہزاد اکبر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم انھوں نے متعدد مرتبہ واضح کیا کہ موجودہ حکومت کا براڈ شیٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے۔ براڈ شیٹ معاملہ پرویز مشرف دور کا تھا۔ حال ہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے نیب میں درخواست دائر کی ہے جس میں انھوں نے شہزاد اکبر اور وزیر قانون کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

شہزاد اکبر کو قومی اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن کی جانب سے ہمیشہ تلخ سوالات کا سامنا رہا۔ بالخصوص مسلم لیگ ن کی ترجمان اور رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب ان سے ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی سے متعلق سوالات کرتیں اور پھر دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ چل نکلتا۔

آج سے ایک سال قبل شہزاد اکبر نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ پر 4 کروڑ 70 لاکھ خرچ ہوئے، 339 ارب 30 کروڑ کی ریکوری کی گئی اور 318 ارب کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگایا۔ تاہم یہ پیسہ بھی رائیگاں گیا اور شہزاد اکبر ان اثاثوں میں سے ایک پائی بھی ملک واپس نہ لا پائے۔

Back to top button