خودکش حملہ آور
تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
وہ شہری یونیورسٹی تھی اور ایم اے ماس کمیونی کیشن کے فائنل ائیر کی کلاس تھی‘ میں لیکچر کے لیے وہاں گیا تھا‘ میں نے کلاس سے پوچھا ’’ وہ تمام خواتین وحضرات ہاتھ کھڑے کریں جنھیں ڈرائیونگ آتی ہے‘‘ ستر طالب علموں میں سے 12 طلباء اور طالبات نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے ڈرائیونگ لائسنس کس کس کے پاس ہے؟‘‘ بارہ میں سے آٹھ ہاتھ نیچے چلے گئے‘ صرف چار ہاتھ کھڑے رہ گئے‘ میں نے آخری سوال پوچھا ’’ آپ میں سے کس کس نے باقاعدہ ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لے کر گاڑی چلانا سیکھی‘‘ آخری چار ہاتھ بھی نیچے چلے گئے۔
ڈرائیونگ دنیا کا خطرناک اور حساس ترین معمول ہوتا ہے‘ آپ جب گاڑی لے کر سڑک پر آتے ہیں تو آپ سمیت سیکڑوں لوگوں کی زندگی خطرے کا شکار ہو جاتی ہے‘ آپ کی معمولی سی غفلت آپ کو ٹرک‘ ٹرالر اور بس کے نیچے دے سکتی ہے‘آپ گاڑی سمیت نالے میں گر سکتے ہیں‘ آپ کی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ سکتی ہے اور آپ راستے میں موجود مکانوں‘ دکانوں اور ریڑھیوں سے ٹکرا سکتے ہیں چناںچہ دنیا کے مہذب ممالک ڈرائیونگ لائسنس کوقتل سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ آپ ڈرائیونگ اسکول سے ٹریننگ کے بغیر ڈرائیونگ لائسنس اپلائی نہیں کر سکتے‘ آپ ڈرائیونگ کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ستر طالب علموں میں سے صرف 12 ڈرائیونگ جانتے تھے‘ چار کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تھا اور ان چاروں نے بھی کسی ڈرائیونگ اسکول سے باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی تھی گویا یہ 12 طالب علم خود کش حملہ آور تھے‘ یہ بارود بن کر روز اپنی اور دوسری کی جان لینے کے لیے گھر سے نکلتے تھے۔
یہ ایک المیہ تھا‘ آپ اب دوسرا المیہ ملاحظہ کیجیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں نے دو سال میں ماس کمیونی کیشن کے کتنے مضامین پڑھے؟‘‘ ۔بتایا گیا ’’ 24‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں جو 24 مضامین میں سے کسی ایک مضمون کے ایکسپرٹ ہیں‘‘ ۔ستر میں سے تین لوگوں نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے ان تینوں سے ان مضامین کے نام پوچھے جن میں یہ خود کو ایکسپرٹ سمجھتے تھے‘ خاتون نے جواب دیا ’’ میں ٹیلی ویژن پروڈکشن کر سکتی ہوں‘‘۔ میں نے ان سے پوچھا ’’وائیٹ بیلنس کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں۔ میں نے پوچھا ’’اسٹوری بورڈ کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں اور میں نے پوچھا ’’ فلم کی پروڈکشن میں کتنے کیمرے استعمال ہوتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’آٹھ‘‘۔
دوسرے صاحب کالم نگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ مطالعے کو روزانہ کتنا وقت دیتے ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’ مجھے مطالعے کے لیے وقت نہیں ملتا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ملک کے پانچ بڑے کالم نگاروں کے نام بتا سکتے ہیں؟‘‘ نوجوان نے فوراً پانچ نام بتا دیے‘ میں نے ان پانچ کالم نگاروں کے کالموں کا ٹائٹل پوچھا‘ نوجوان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ تیسری خاتون نیوز کاسٹنگ کی ’’مہارت‘‘ رکھتی تھیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ امریکا کی کل ریاستیں کتنی ہیں؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ پاکستان کے صدر کا نام کیا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ سینیٹ کے کل ارکان کی تعداد کتنی ہے‘‘ وہ خاموش رہیں۔
میں نے تینوں ماہرین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پوری کلاس سے پوچھا ’’ آپ میں سے جاب کون کون کرنا چاہتا ہے‘‘ 70 میں سے 61 ہاتھ کھڑے ہو گئے‘ میں نے ان 9 طالب علموں سے نوکری نہ کرنے کی وجہ پوچھی جنھوں نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے تھے‘ تین خواتین نے جواب دیا ’’ ہماری منگنی ہو چکی ہے‘ ایم اے کے بعد شادی ہو جائے گی‘‘۔ دو نوجوان ملک سے باہر جا رہے تھے‘ دو نوجوان سرکاری ملازم تھے‘ وہ کوالی فکیشن بڑھانے کے لیے ایم اے کر رہے تھے جب کہ دو نوجوان ایم اے کے بعد والد کا کاروبار سنبھالنا چاہتے تھے۔
میں اب 61 نوجوانوں کی طرف مڑا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کی تنخواہ کہاں سے اسٹارٹ ہونی چاہیے‘‘ مختلف نوجوانوں نے مختلف فگرز دیے لیکن 50 ہزار روپے پر اتفاق رائے ہو گیا‘ میں نے اب 61 نوجوانوں سے عرض کیا ’’ ملک میں اب دو مسئلے ہیں‘ آپ کی کلاس کے 90 فیصد لوگ نوکری کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان میں ہر سال 23 فیصد نوکریاں کم ہو رہی ہیں‘ پاکستان تیسری دنیا کا غریب ملک ہے‘ ملک میں ستر ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ یہ تمام چینلز مالیاتی بحران کی وجہ سے ملازمین میں کمی کر رہے ہیں‘ یہ ’’تین پوسٹوں پر ایک شخص‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
اخبارات کی حالت بھی چینلز سے مختلف نہیں‘ اخبار میں سال سال تک کوئی آسامی پیدا نہیں ہوتی جب کہ ہماری یونیورسٹیاں سال میں ماس کمیونی کیشن کے دس ہزار طالب علم پیدا کر رہی ہیں اور ان میں سے نوے فیصد طالب علم نوکری کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی طرح شروع میں پچاس ہزار روپے تنخواہ لینا چاہتے ہیں‘ دوم‘ آپ کو کچھ نہیں آتا‘ آپ ایم اے کرنے کے باوجود 24 مضامین میں سے کسی مضمون کے ایکسپرٹ نہیں ہیں‘ آپ میں سے صرف 12 لوگوں کو ڈرائیونگ کی جاب مل سکتی ہے اور وہاں بھی اگر ڈرائیونگ لائسنس ضروری ہوا تو میرٹ پر صرف چار لوگ رہ جائیں گے اور کمپنی نے اگر ڈرائیونگ اسکول کا سر ٹیفکیٹ مانگ لیا تو یہ چار بھی ’’ڈس کوالی فائی‘‘ہو جائیں گے‘‘۔
میری گفتگو یقینا نامعقول اور نان پریکٹیکل تھی‘ شاید اسی لیے پوری کلاس اور کلاس کے اساتذہ ناراض ہو گئے‘ اساتذہ کا کہنا تھا‘ ہم نے آپ کو طالب علموں کو ’’اِن کریج‘‘ کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن آپ نے انھیں ’’ڈس کریج‘‘ کر دیا‘ میں نے اساتذہ سے پوچھا ’’کیا آپ کے بچے برسر روزگار ہیں‘‘ چائے کی میز پر دس استاد تھے‘ ان میں سے 7 استاد بزرگ تھے‘ ان کے بچے تعلیم مکمل کر چکے تھے‘ ان سات کے سات اساتذہ کے بچے بے روزگار تھے‘ میں نے بچوں کی ڈگریوں کی تفصیل پوچھی‘ دو بچے ڈاکٹر تھے‘ تین انجینئر تھے‘ دو ایم بی اے تھے اور ایک استاد کی بچی سافٹ ویئر انجینئر تھی‘ یہ بچے ٹیکنیکل شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کے بچے ٹیکنیکل شعبوں میں گریجوایشن کرنے کے باوجود کیوں بے روزگار ہیں‘‘۔
اساتذہ نے جواب دیا ’’ملک میں میرٹ نہیں‘ ہمارے بچے سفارش اور رشوت نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ رشوت اور سفارش سرکاری ملازمت کے لیے درکار ہوتی ہے‘آپ کے بچے پرائیویٹ سیکٹر میں جائیں‘‘ اساتذہ نے جواب دیا ’’بچے پرائیویٹ سیکٹر میں سیکڑوں مرتبہ اپلائی کر چکے ہیں مگر انھیں انٹرویو تک کی کال نہیں آئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ بچوں کو کال کیوں نہیں آتی‘‘ اساتذہ کا کہنا تھا ’’ سفارش اور رشوت‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جی نہیں‘ جابز کم ہیں اور امیدوار زیادہ چناںچہ آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم کے باوجود بے روزگار ہیں اور یہ ٹیکنیکل شعبوں کی حالت ہے جب کہ آپ مجھ سے ماس کمیونی کیشن کے طلباء اور طالبات کو ’’اِن کریج‘‘ کروانا چاہتے ہیں‘‘ اساتذہ خاموش ہو گئے۔
پاکستان میں بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک میں ڈیڑھ کروڑ پڑھے لکھے‘ ڈگری ہولڈرز بے روزگار ہیں جب کہ بے روزگاروں کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے‘ یہ 5 کروڑ لوگ نوکریاں بھی چاہتے ہیں‘ بھاری تنخواہیں بھی اور مراعات بھی لیکن صلاحیت دیکھی جائے تو یہ ڈرائیونگ تک نہیں جانتے‘ یہ کمپیوٹر پر ٹائپ نہیں کر سکتے‘ یہ حساب نہیں کر سکتے اور یہ درخواست نہیں لکھ سکتے مگر یہ لوگ اس کے باوجود ایسی نوکریوں کی تلاش میں ہیں جن میں تنخواہیں لاکھوں میں ہوں‘ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع وسیع ہوں‘ اختیارات وزیراعظم کے برابر ہوں لیکن کام اور کارکردگی صفر ہو‘ میرا خیال ہے دنیا کی کوئی حکومت‘ دنیا کا کوئی نظام اس اپروچ اور بے روزگاری کے اس ہجوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ یہ ان پانچ کروڑ لوگوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا‘ ہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں۔
اس مسئلے کے چار حل ہیں‘ ایک‘ آپ لوگوں کی اپروچ کو نوکری سے ذاتی کام پر شفٹ کریں‘ حکومت ’’سیلف ایمپلائمنٹ‘‘ پر کام کرے اور یہ ڈیٹا کالج کے طلباء کے ساتھ شیئر کرے‘ دو‘ ملک میں گریجوایشن کے بعد ماسٹر یا ایم اے میں داخلے کے لیے دو سال کا عملی تجربہ لازمی قرار دے دیا جائے‘ طالب علم بی اے کرے‘ عملی زندگی میں جائے‘ وہاں دو سال گزارے اور اس کے بعد ماسٹر لیول کی تعلیم کے لیے اپلائی کر سکے‘ دو سال کے عملی تجربے کے دوران بھی جو طالب علم ذاتی کام شروع کرے‘ اسے 80 نمبر دیے جائیں اور نوکری کرنے والے کو 20 نمبر۔
تین‘ اعلیٰ تعلیم مہنگی بھی کر دی جائے اور مشکل بھی۔ یونیورسٹیاں کسی بھی شعبے میں سال میں سو سے زائد طالب علم نہ لے سکیں‘ سلیبس کو 80 فیصد پریکٹیکل اور 20 فیصد تھیوریٹیکل بنا دیا جائے‘ اہل طالب علموں کی فیس معاف کر دی جائے‘ باقی طالب علموں کو بینکوں کے ذریعے ’’ ایجوکیشن لون‘‘ کی سہولت دے دی جائے‘ ملک کی تمام سرکاری آسامیاں ’’سی ایس ایس‘‘ جیسے امتحانات کے ذریعے پُر کی جائیں تا کہ کم از کم سرکاری نوکریوں میں سفارش اور رشوت ختم ہو جائے اور چار‘ ملک میں ’’ٹیلنٹ ایکسپورٹ‘‘ کا ادارہ بنایا جائے‘ یہ ادارہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ’’ہیومن ریسورس ایکسپورٹ‘‘ کے معاہدے کرے‘ ان ممالک کی ضرورت کے مطابق یونیورسٹی کے بچوں کو ٹریننگ اور تعلیم دے اور اس کے بعد ان نوجوانوں کو ان ممالک میں بھجوا دے‘ یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔
ہم نے اگر بے روزگاری کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو یہ نام نہاد پڑھے لکھے نوجوان مستقبل کے خودکش حملہ آور ثابت ہوں گے اور ہم اگر طالبان سے بچ بھی گئے تو بھی ہم خود کو ان نااہل بے روزگار خود کش حملہ آوروں سے نہیں بچا پائیں گے کیوںکہ یہ ڈیڑھ کروڑ لوگ ملکی سلامتی کے لیے اصل خطرہ ہیں۔