کیا ترازو کے پلڑے اب چھڑی برابر کرنے والی ہے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ اگر پانچ برس قبل عدالت اعظمی کا فل کورٹ بن جاتا تو ملک موجودہ بحران کا شکار نہ ہوتا . اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پاور گیم سے نہ نکلے تو ترازو کے پلڑوں میں توازن لانے کے لئے چھڑی حرکت میں آ جائے گی۔
اپنے ایک کالم میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ پانچ سال قبل جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنا یا گیا ۔وہ عمران خان کے دست راست تھے اور پی ٹی آئی کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے پیسے اور کوششوں کا حصہ کسی بھی دوسرے سے زیادہ دخل تھا۔ لیکن ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا ، یوں لگا کہ وہ جہانگیر ترین نہیں بلکہ جہانگیر شریف ہوں ۔جیسے وہ پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری ہوں۔جہانگیر ترین کو جہانگیر شریف بنانے میں دوسروں کے علاوہ شاید وہ شخص خود بھی شریک تھا جن کی خاطر انہوں نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا۔
سلیم صافی کے مطابق ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ نہ تو پانامہ کے کیس کا سپریم کورٹ کی سطح پر سماعت کا کوئی جواز تھا اور نہ ہی عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیس کا ۔ یہ ٹرائل کورٹس، نیب یا پھر الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملات تھے لیکن چونکہ نواز شریف کے پانامہ کیس کی سماعت ہو رہی تھی، اس لئے توازن کی خاطر عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیسز کو بھی سنا گیا۔
نواز شریف کے کیس میں خلاف توقع آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا اطلاق کیا گیا، حالانکہ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ اگر اس کا اطلاق کیا گیا تو پھر پارلیمنٹ کا کوئی بھی رکن نہیں بچے گا اور دوسرا اقامہ کی بنیاد پر سزا دی گئی جس کا کسی بھی پٹیشن میں ذکر نہیں تھا، اب اگر نواز شریف والا کلیہ استعمال ہوتا تو عمران خان کا بچنا ناممکن تھا، لیکن عمران خان کے فیصلے میں بوجہ اس اصول کا اسی شدت کے ساتھ اطلاق نظر نہیں آیا ۔ لیکن ان کے دست راست جہانگیر خان ترین کے کیس میں وہی طریقہ اپنایا گیا جو نوازشریف کے کیس میں اپنایا گیا تھا۔سلیم صافی کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پانامہ کا کیس عدالت میں گیا تو ایک محترم اور دیانتدار جج نے اپنے گھر بلایا۔ جج ہو کر بھی انہوں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے کر کہا سلیم ،خدا کیلئے عدلیہ کو تباہی سے بچانے میں ہماری مدد کرو۔
عرض کیا کہ مائی لارڈ مجھ جیسا معمولی اخبار نویس اور تقسیم شدہ میڈیا عدلیہ کی کیا مدد کرسکتا ہے؟ کہنے لگے کہ میڈیا ،عدلیہ کی یہ مدد کرسکتا ہے کہ وہ سیاستدانوں پر دباؤ ڈالے کہ وہ سیاسی کیسز وہاں نہ لے جائیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ ابھی بہت کمزور ہے اور یہاں کی سیاست ابھی بہت ناپختہ ہے۔ عدلیہ خالص تکنیکی بنیادوں پر قانون کے مطابق چلے تو پاکستان کا کوئی سیاستدان نہیں بچ سکتا اور مقبول سیاستدانوں کو نااہل کرے تو عدلیہ حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یوں یہ کھیل عدلیہ کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ سلیم صافی کہتے ہیں کہ پانچ برس قبل نواز شریف، عمران خان اور جہانگیر ترین کی کے معاملات کا دوبارہ فل کورٹ میں جائزہ لیا جانا چاہئے تھا اگر اس وقت یہ ہو جاتا تو نہ ملک اس جاری بحران سے گزرتا اور نہ آج ہماری عدالتوں کا یہ حشر ہوتا۔ تب فل کورٹ بنالیا جاتا تو آج فل کورٹ کا مطالبہ سامنے آتا اور نہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ایک دوسرے کے خلاف فیصلے دے رہے ہوتے۔
اب بھی وقت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پاور گیم سے نکل کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں ورنہ ترازو کے پلڑوں میں توازن لانے کے لئے چھڑی حرکت میں آ جائے گی۔