دبنگ اور اصول پرست خاتون جج، جسٹس عائشہ ملک کون ہیں؟


لاہور ہائیکورٹ کے 40 جج صاحبان میں شامل صرف دو خاتون ججوں میں سے ایک جسٹس عائشہ ملک نے حال ہی میں ریپ کا شکار خواتین کے ٹو فنگر نامی شرمناک ٹیسٹ کو کالعدم قرار دے کر مردانہ برتری والے معاشرے میں کمزور خواتین کو ایک نیا حوصلہ دیا یے۔ جسٹس عائشہ ملک نے اپنے فیصلے میں’ٹو فنگر‘ یا جنسی استحصال کی شکار خواتین کا دو انگلیوں والا کنوار پن ٹیسٹ خلاف آئین اور قانون قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اس نام نہاد ’کنوار پن‘ ٹیسٹ کی کوئی طبی یا سائنسی بنیاد نہیں بلکہ یہ خاتون کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔

54 سالہ جسٹس عائشہ ملک نے ابتدائی تعلیم کراچی کے گرائمر اسکول سے اور ایل ایل ایم کی ڈگری امریکہ کے مشہور ہارورڈ لا اسکول سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے واپس کراچی آ کر اپنی عدالتی پریکٹس کا آغاز کیا۔ کراچی میں فخرالدین جی ابراہیم اینڈ کمپنی کے سینئر پارٹنر زاہد ایف ابراہیم کی جسٹس عائشہ اے ملک سے پہلی ملاقات 1997 میں تب ہوئی جب وہ انٹرویو دینے آئیں۔ اگلے چار سال جسٹس عائشہ ملک نے زاہد ایف ابراہیم کے والد اور سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فخرالدین جی ابراہیم، جو بعد میں گورنر سندھ بھی تعینات ہوئے، کے زیر سایہ کام کیا۔ زاہد ابراہیم کہتے ہیں کہ ’عائشہ بے لاگ اور اپنی بات کہنے والوں میں سے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’عرف عام میں جسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے، عائشہ اسکی بنیاد پر کار فرما ہیں اور ہمیشہ سے ان میں کھرا رہنے کی خواہش رہی ہے۔‘

جسٹس عائشہ ملک کے شوہر ہمایوں احسان لاہور میں ایک لا کالج چلاتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔ اپنی ذاتی زندگی میں جسٹس عائشہ مصوری سے محظوظ ہوتی ہیں اور خاص طور پر منی ایچر آرٹ کو پسند کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پالتو جانور رکھنے کی بھی شوقین ہیں۔ عائشہ ملک اب ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن ٹو فنگر ٹیسٹ کے فیصلے سے پہلے بھی جسٹس عائشہ کی عدالت میں پیش ہونے والے مرد وکلا پر ایک دھاک تھی جس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اکثر مرد وکلا کا دعویٰ ہے کہ جج صاحبہ بسا اوقات کرخت اور درشت ہو جاتی ہیں اور وکلا کے دلائل کے درمیان ان کا ٹوکنا معمول کی بات ہے۔ دوسری طرف خواتین وکلا اس تاثر کو ’غلط‘ قرار دیتے ہوئے ردّ کرتی ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ پیشہ قانون میں صنفی تعصب پایا جاتا ہے جس کی بنا پر خواتین کو اپنے مرد ہم مرتبہ کی نسبت زیادہ سخت جانچ پڑتال کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون وکیل نے کہا کہ ’مرد وکلا ایک خاتون جج کی عدالت میں پیش ہونے پر جز بز ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جتنے مرد وکلا کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت جج صاحبہ کو پسند نہیں کرتی۔‘

جسٹس عائشہ ایک بااصول اور اپنے کام سے سچی لگن رکھنے والی منصف ہیں پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد جسٹس عائشہ اے ملک کی عدالت میں ایک اصول پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑتا تھا اور وہ یہ کہ کورٹ روم میں بلا تفریق ماسک کی پابندی لازمی کرنا ہوگی۔ باوجود اس پابندی کے حال ہی میں ایک سینئر وکیل نے دلائل پیش کرتے ہوئے اپنا ماسک اتار دیا۔ اس موقع پر عدالت میں موجود ایک اور وکیل نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک اتارنے پر جج صاحبہ نے مذکورہ وکیل کو اپنی عدالت کا اصول یاد دلایا جس پر وکیل نے کہا کہ انہیں ماسک پہن کر بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔
جس پر جسٹس عائشہ نے کہا ’ٹھیک ہے، پھر آپ نہ ہی بولیں تو بہتر ہے۔‘ جسٹس عائشہ ملک کی اس تجویز پر وکیل صاحب نے خاموشی سے اپنا ماسک واپس چہرے پر سِرکا لیا اور بولنا شروع کر دیا۔

جسٹس عائشہ خواتین کو پیشہ قانون میں بااختیار بنانے کےلیے ہر دم کوشاں رہتی ہیں۔ سنہ 2016 سے سالانہ پنجاب خواتین ججز کانفرنس منعقد کروانے میں ان کا کردار مرکزی نوعیت کا رہا ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد صوبے کی خواتین ججوں کو پیش آنے والی مشکلات کا تدارک کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اب تک ان کے صادر کیے گئے 99 فیصلے خواتین کے حقوق کےلیے ان کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب سنہ 2013 میں طبی اور جسمانی امتحان پاس کرنے کے باوجود محکمہ انسداد دہشتگردی پنجاب نے اوپن میرٹ پر خواتین کارپورلز کو بھرتی کرنے سے انکار کیا تو ان خواتین کی جانب سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی پولیس سی ٹی ڈی رائے محمد طاہر کی دلیل تھی کہ محکمہ انسداد دہشگردی کی نوکری ’خطرناک اور محنت طلب‘ کام ہے اور اس بنا پر خواتین کارپورلز کو صرف دفتری کام ہی تفویض کیا گیا ہے جب کہ اس کی نسبت بھاری معاوضے والے کام صرف مردوں کو ہی دیے جاتے ہیں کیوں کہ وہ اس کام کےلیے ’زیادہ موزوں‘ ہیں۔
خواتین مدعیوں کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک نے اپنے فیصلے میں لکھا ’قابلیت کو صنفی ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔‘

جسٹس عائشہ ملک کی میراث محض صنفی مساوات کےلیے سعی تک محدود نہیں بلکہ وہ بطور ایسی جج بھی اپنی پہچان بنا چکی ہیں جو طاقتور حلقوں کے خلاف ایسے دبنگ فیصلے صادر کرنے سے نہیں ڈرتیں جن کی بدولت ان حلقوں میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ سنہ 2016 میں جسٹس عائشہ نے اتفاق شوگر ملز لمیٹڈ اور چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کی جنوبی پنجاب منتقلی کو روک دیا۔ درخواست گزار کا الزام تھا کہ یہ دونوں شوگر ملز اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی ملکیت ہیں۔ اپنے اس فیصلے میں معزز جج صاحبہ نے لکھا کہ ’حکومتی سہولت کاری کے ساتھ مذکورہ شوگر ملز اس پابندی کو جُل دینے میں کامیاب ہوگئیں جس کے تحت کپاس کے پیداواری علاقوں کو ’نہایت نقصان‘ پہنچنے کے سبب نئی شوگر ملیں لگانے پر قانونی قدغن تھی۔‘ جب مذکورہ کمپنیوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو وہاں بھی لاہور ہائی کورٹ اور جسٹس عائشہ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ان شوگر ملوں کو واپس اپنی پہلی جگہ پر جانے کا حکم دیا گیا۔

پاکستانی سپریم کورٹ کی تاریخ میں ابھی تک کوئی خاتون چیف جسٹس کے عہدے پر فائز نہیں ہو پائی ہیں اور نہ ہی لاہور ہائی کورٹ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے، حالانکہ پہلی خاتون جج کی تعیناتی سنہ 1974 میں ہوئی تھی۔ اگرچہ اس پیشے میں خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں اس کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ 2024 یا 2025 میں اپنی باری آنے پر جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ کی پہلی چیف جسٹس بننے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button