ایرانی تیل کی سمگلنگ پر پابندی سے لاکھوں بلوچ عوام کا روزگار متاثر

بلوچستان حکومت اور سکیورٹی فورسز نے ایران سے پاکستان میں تیل کی سمگلنگ روکنے کے لیے مرحلہ وار پابندیوں کا نفاذ تو شروع کر دیا ہے لیکن صوبہ بھر کے سرحدی علاقوں میں ان پابندیوں کے خلاف احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ تیل کی سمگلنگ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کا ایک بڑا ذریعہ روزگار ہے۔

یاد ریے کہ ایرانی پیٹرول، ڈیزل اور دیگر سامان کی سمگلنگ کا حجم کئی ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے جس کے بعد حکومت پاکستان نے یہ سلسلہ روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں گوادر میں سمندری اور زمینی راستے سے ایرانی تیل کی سمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ دیگر سرحدی اضلاع میں ایران سے تیل لانے پر پابندی ہفتے میں ایک دن سے بڑھا کر تین دن کر دی گئی۔

 ان پابندیوں کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومتی اقدامات کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کی صورت میں صوبے کی معیشت اور امن وامان کی صورتحال پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے تیس لاکھ سے زائد لوگ اس کام سے روزگار کماتے ہیں جب کہ سرکاری رپورٹس کے مطابق صوبے کے 24 لاکھ لوگوں کی زندگی کا انحصار ایرانی تیل کی سمگلنگ پر ہے۔ زیادہ تر دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی بلوچستان کے بلوچ رہائشی اس کاروبار سے منسلک ہیں جن کے پاس معاشی مواقع بہت کم ہیں۔

یاد ریے کہ خفیہ اداروں نے رواں سال اپریل میں اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران سے سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ڈیزل اور پیٹرول بلوچستان کے راستے پاکستان سمگل ہو رہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

حکومت بلوچستان کے ایک سینیئر آفیسر نے بتایا کہ نگراں حکومت کے دور میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک کے لیے سخت اقدامات شروع کیے گئے تھے۔ تاہم الیکشن کے بعد نئی حکومت نے یہ سختی ختم کر دی تھی۔ تاہم اب ایک بار پھر سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت ترین اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی اب متعلقہ اداروں نے تیل کی سمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بجائے لمیٹیشن پالیسی اختیار کی ہے جس کے تحت پاکستانی سرحد کے اندر اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع تک ایرانی تیل کی مقدار اور ترسیل کو آہستہ آہستہ محدود کیا جا رہا ہے۔ سمگلنگ کو مرحلہ وار اتنا کم کر دیا جائے گا کہ صرف سرحدی علاقوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ پہلے مرحلے میں گوادر میں سمندری راستے اور کشتیوں کے ذریعے ایرانی تیل لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ بین الاضلاعی ترسیل پر پابندی لگانے کے علاوہ چاغی، واشک، پنجگور اور کیچ کے اضلاع میں پاک ایران سرحد پر ان کراسنگ پوائنٹس کی بندش کے دورانیے کو بڑھا دیا گیا ہے جہاں سے گاڑیوں کے ذریعے ایرانی تیل پاکستان لانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ کراسنگ پوائنٹس اب ہفتے میں تین دن یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو بند رہیں گے۔ اس سے پہلے صرف جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔

اس کے علاوہ ایرانی تیل سے منسلک افراد کی بھی چھان بین کی جارہی ہے۔ ایسے لوگوں کی گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی جن کا تعلق بلوچ سرحدی علاقوں سے نہیں اور انہوں نے دوسروں کے نام پر رجسٹریشن کرا رکھی ہے۔ یعنی ایرانی تیل سے مستقبل میں صرف سرحدی اضلاع کے رہائشی محدود پیمانے پر روزگار کما سکیں گے۔

گوادر میں ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک شاہ بخش نے تصدیق کی کہ ایران سے زمینی اور سمندری راستے سے ایرانی تیل گوادر لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر میں بارڈر چیک پوسٹ نمبر 250 کے زمینی راستے کے علاوہ جیونی میں کنٹانی ہور کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے رواں ہفتے اس سمندری راستے کو بھی بند کر دیا ہے جہاں سے روزانہ تقریباً تین ہزار کشتیاں لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لاتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سمندری راستے تک لوگوں کی رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے کی باڑ لگائی جا رہی ہے۔ گوادر سے باہر ایرانی تیل لے جانے پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، جن چیک پوسٹوں پر پہلے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی اب وہاں بھی بہت سختی کی جا رہی ہے۔

شاہ بخش کے مطابق صرف کنٹانی ہور کے علاقے میں ہی کم از کم بیس ہزار افراد براہ راست تیل سمگلنگ کے کاروبار سے وابستہ تھے جو اب بے روزگار ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب خفیہ اداروں کی اپریل میں سامنےآنے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان کے مکران اور رخشاں ڈویژن کے پانچ سرحدی اضلاع کے پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ ایرانی تیل کی سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ کی عبدوئی سرحد سے روزانہ 26 لاکھ لیٹر، گوادر اور کنٹانی کے سمندری راستے سے یومیہ 19 لاکھ لیٹر، ضلع چاغی کے علاقے راجے سے یومیہ ساڑھے 6 لاکھ لیٹر، واشک کے جودر سرحد سے سوا لاکھ لیٹر جبکہ پنجگور کے جیرک اور چیدگی کے دو سرحدی راستوں سے یومیہ 25 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان پہنچتا ہے۔

منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے امکانات معدوم کیوں ہو گئے؟

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روزانہ 1800 سے 2000 ایرانی ساختہ گاڑیاں سرحد پار سے پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہر ایک گاڑی میں 3200 سے 3400 لیٹر کی گنجائش ہوتی ہے جب کہ کشتیوں میں 1600 سے 2000 لیٹر لے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سمگل شدہ ایرانی تیل میں سے 95 فیصد ٹوکن یا پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت ملک کے اندر لایا جاتا ہے جسے 2021 میں ایف سی اور سوال انتظامیہ نے بلوچستان کے ایرانی سرحد کے ساتھ اضلاع میں قائم کیا تھا۔

ایرانی تیل پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنےوالے کیچ بارڈر الائنس کے رہنما بہروز درازئی نے بتایا کہ پہلے ٹوکن کے بغیر ہر کوئی اپنی مرضی سے سرحد پر جا کر ایرانی ساختہ زمباد گاڑیوں میں تیل لاسکتا تھا۔ اس کے بعد سرحد پر آہنی باڑ لگائی گئی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کرکے ٹوکن نظام نافذ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹوکن نظام کے نفاذ کے بعد ابتدا میں ہر گاڑی کو پندرہ دنوں میں ایک بار سرحد سے تیل لانے کا موقع ملتا تھا اب تین تین مہینوں میں بھی باری نہیں آتی کیونکہ رجسٹریشن بیس ہزار گاڑیوں کی گئی ہے جب کہ روزانہ صرف چار سو سے چھ سو گاڑیوں کو سرحد پار سے تیل لانے کی اجازت ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے بعض افسران نے پیسوں کے بل بوتے پر سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے نام پر درجنوں ٹوکن حاصل کر رکھے ہیں جس سے وہ ماہانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں گاڑی کے ڈرائیور اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد صرف بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایرانی تیل کی ترسیل سے گاڑی والے کو بمشکل پچیس تیس ہزار روپے بچتے ہیں اور غریب لوگوں کا بس چولہا ہی جلتا ہے جب کہ اصل کمائی بااثر لوگوں کی ہوتی ہے جن کی درجنوں گاڑیاں چل رہی ہیں۔

ایرانی تیل کی سمگلنگ میں بااثر افراد بشمول صوبائی وزراء، ارکان اسمبلی، حکومتی شخصیات اور سرکاری اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تصدیق خفیہ اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں کی تھی۔ رپورٹ میں 105 بڑے سمگلروں، چاروں صوبوں کے 100 کرپٹ اہلکاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں ملوث 533 غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ پیٹرول پمپس بھی کی نشاندہی کی گئی تھی۔ تاہم ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

سرکاری رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری اہلکار پیسوں کے عوض تیل کی سمگلنگ کی اجازت دیتے ہیں جس کی بدولت ایرانی تیل کا 45 فیصد حصہ سندھ، 25 فیصد پنجاب اور خیبرپختونخوا تک پہنچ جاتا ہے۔ ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک بہروز درازئی کہتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں نہ کوئی فیکٹری، نہ زراعت اور نہ ہی روزگار کے دوسرے ذرائع ہیں اس لیے ایرانی تیل کی غیررسمی تجارت ہی لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ ہے، جب سرحد کھلی رہتی ہے تو لوگوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں اور جب سرحد بند ہوتی ہے تو یہ چولہے بجھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی تیل کا کاروبار مکمل بند کیاگیا تو لاکھوں بے روزگار نوجوان کیا کریں گے۔

Back to top button