سپریم کورٹ کا لانگ مارچ کیخلا ف کسی بھی کارروائی سے انکار

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہکسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل 5رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف ’آزادی مارچ‘ کے حوالے سے عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر وفاقی حکومت کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے سماعت کے آغاز میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ درخواست پہلے والی درخواست کا تسلسل ہے، گزشتہ دھرنے کے دوران شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے، بیان حلفی دیا گیا تھا کہ شہریوں کو پریشانی نہیں ہوگی، عدالت کا حکم ایک مخصوص جگہ تک تھا لیکن دھرنا ڈی چوک تک لایا گیا، جب مخصوص جگہ پر نہ گئے اور ڈی چوک کی جانب آئے تو مالی نقصان ہوا،اٹارنی جنرل نے عدالت کا 25 مئی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور استدعا کی کہ عدالت ان کو سزا دے جنہوں نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا وزارت داخلہ کی توہینِ عدالت کی درخواست ہے، سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی لیکن یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی، عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیئے گئے تھے، سری نگر ہائی وے کا گراؤنڈ انہوں نے خود مانگا تھا۔
اشتراوصاف نے کہاکارکنان کال پر ڈی چوک کی جانب آ گئے، کارکنان ریڈزون کی جانب آئے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا،انہوں نےعدالت کو آگاہ کیا کہ مظاہرین کے ریڈزون کی جانب آنے پر25 مئی کی رات متفرق درخواست دائر کی جس میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی استدعا کی، عدالتی کارروائی کے دوران وکلا تحریک انصاف قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عبوری آرڈرز کس لیے دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان تعلیمی اداروں میں طلبا اور عوام کو اکسا رہے ہیں، جسٹس عمرعطابندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک عدالت ہیں، آپ کے مطابق عدالتی احکامات کی پہلے ہی خلاف ورزی کی جا چکی ہے، آپ ایگزیکٹو اتھارٹی ہیں، اُس وقت عدالتی احکامات پر انحصار کر رہے تھے، موجودہ صورتحال میں آپ کو اختیار ہے کہ آپ روکنے کے لیے اقدامات کریں، 25مئی واقعے میں 13 افراد زخمی ہوئے، پبلک پراپرٹی کو نقصان ہوا،کیس داخل نہ ہوا، دوسرے دن عمران خان صبح سویرے واپس چلے گئے۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے میں رپورٹس کا جائزہ لیں گے، آپ اپنے آپ کو قانون کے مطابق تیار کریں، اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آبادمیں آزادکشمیر اور خیبرپختونخوا کی پولیس بھی داخل ہوئی تھی، عدالت نے اٹارنی جنرل کو پولیس اور انتظامیہ کی جمع کردہ رپورٹس فراہم کیں، جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہہ یہ خفیہ رپورٹس ہیں، ان کا جائزہ لیں۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ عدالتی حکمنامے میں کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی لیڈر شپ کو اپنے کارکنان کو پرسکون رہنے کی بھی ہدایت کی، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل میں کا مظاہرہ کر رہے ہیں،عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کی کہ آیا پی ٹی آئی لیڈر شپ نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی یا نہیں، متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔
بینچ کے سربراہ نے کہارپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کردی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں، وہ اپنی تقریروں سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، احتجاج کرنا بنیادی حق ہے،آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں، ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ آپ شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں، رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیے گئے ہیں، 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے، عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا،جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں، ابھی تو کوئی ہجوم نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہارپورٹس کے مطابق 300 کے قریب افراد ریڈ زون کی جانب داخل ہوئے تھے، بظاہر لگتا ہے کہ وہ مقامی لوگ تھے، اگر احتجاج کرنے والے ہوتے تو زیادہ ہوتے، انہوں نے اٹارنی جنر ل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب صورتحال سامنے آئی تو ہم نے چھٹی والے دن عدالت لگائی، انہوں نے اٹارنی جنر ل کو ہدایت دی کہ آپ کو اس صورتحال میں مضبوط دلائل دینے ہوں گے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں سب کو سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، جمہوریت معیاری قیادت پیدا کرتی ہے، ہم نے ہمیشہ قانون کی بات کی ہے، ہم سیاسی کردار نہیں ہیں اور نہ ہی سیاسی اقدامات لے سکتے ہیں، جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے، کسی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہیں، آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں، انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کیلئے مکمل تیار کرے، جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ قبل از وقت ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے، جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا سیلاب آسکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے عوام کا سیلاب؟ گزشتہ مرتبہ 200، 300 لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو عمران خان کے سابقہ احتجاج سے متعلق عدالتی حکم پر جمع شدہ ایجنسیوں کی رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دے دیا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا،وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا،25مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ‘آزادی مارچ’ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
دائردرخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی ، ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔
توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی،عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
دائردرخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا، اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
درخواست میں حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی،پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔