سپاہ صحابہ اور MQM کا بھی پابندی ہٹانے کا مطالبہ


بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا. تحریک لبیک پر پابندی ختم کیے جانے کے بعد اب کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور کالعدم ایم کیو ایم نے بھی حکومت سے خود پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے جس کے بعد کپتان حکومت مشکل میں پڑ گئی ہے۔ سپاہ صحابہ پاکستان کے مرکزی رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی اور ایم کیو ایم کے سینیٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اگر تحریک لبیک پر عائد پابندی ختم ہو سکتی ہے تو پھر انکی جماعتوں پر بھی پابندی برقرار ر کھنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ یاد رہے کہ ماضی میں پابندی عائد کیے جانے کے بعد سپاہ صحابہ نے اپنا نام بدل کر اہل سنت والجماعت رکھ لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم نے اپنا نام بدل کر ایم کیو ایم پاکستان رکھ لیا تھا۔ سپاہ صحابہ کے مولانا اورنگزیب فاروقی نے اپنی تازہ تقریر میں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر انکی تنظیم پر عائد پابندی سیدھی طرح ختم نہ کی گئی تو وہ ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنا بھی جانتے ہیں لہذا حکومت کو تیاری کر لینی چاہیئے۔ چنانچہ اس معاملے پر کپتان حکومت گھمبیر مشکل میں پھنستی نظر آتی ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پر پابندی ختم کرنے کے بعد یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ آخر دوسری تنظیموں کو بھی یہی رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی خصوصا جب تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ بھی امن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کے دہشت گردانہ حملوں میں 85 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے اور ملک کو اربوں کا نقصان بھی ہوا۔ لہذا اگر پھر بھی اسکے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں اور عام معافی دینے کا سوچا جا سکتا ہے تو پھر سپاہ صحابہ صحابہ، ایم کیو ایم اور بلوچ پشتون اور سندھی قوم پرست تنظیموں کو رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا پنجاب سے تعلق رکھنے والی مذہبی انتہا پسند تنظیموں سے رویہ مفاہمتی ہے جبکہ بلوچ، پشتون اور سندھی قوم پرست تنظیموں سے رویہ مزاحمتی ہے۔ لیکن اب ملک بھر میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ اگر تحریک لبیک کو اتنی بڑی رعایت دی جا سکتی ہے، تو ایم کیو ایم ور قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں سے بھی مذاکرات کیے جانے چاہیيں تاکہ ملک میں بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکے۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے حامی ہیں کہ بلوچ مسلح گروپوں سے بات چیت کی جانا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ہمیشہ سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ ان گروپوں سے بات چیت کرنی چاہیے اور ناراض عناصر سے بات چیت کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جانا چاہیے۔ جب ہم اقتدار میں تھے تو ہم نے کوشش کی تھی کہ ان سے بات کریں اور مذاکرات شروع بھی کيے گئے، لیکن بدقسمتی سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن اب بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جو بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جا سکے۔‘‘ ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ جب ان کی حکومت نے مذاکرات شروع کیے تھے تو ناراض اور مسلح گروپوں کے سامنے صرف یہ شرائط پیش کی گئيں کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کریں اور نہ ہی اس کے خلاف ہتھیار اٹھائيں۔
ایم کیو ایم کے سابق رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اگر تحریک لبیک اور ٹی ٹی پی سے بات چیت کی جا سکتی ہے تو ایم کیو ایم لندن سے بات چیت کیوں نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے الطاف حسین اور ان کی جماعت سے اختلافات تو ہیں لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان پر ابھی تک جو بھی الزامات لگے ہیں وہ صرف الزامات کی حد تک ہیں یہاں تک کہ میجر کلیم کیس میں بھی الطاف حسین کو بری کر دیا گیا تھا۔ تو جس طرح دوسری تنظیموں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائيں کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کریں گی، بالکل اسی طرح ایم کیو ایم لندن سے بھی اسی طرح کی یقین دہانی طلب کرنی چاہیے اور انتظامیہ کی طرف سے ان پر جو پابندی لگائی گئی ہے، اس کو ختم کیا جانا چاہيے۔ رضا ہارون کا کہنا تھا کہ یہ رعایت غیر مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ انہون نے مذید کہا کہ الطاف حسین کو بھی وضاحت دینی چاہیے کہ انہوں نے کیوں 22 اگست کو پاکستان مخالف تقریر کی اور سندھو دیش کا نعرہ لگایا۔ انکی وضاحت اور معافی کے بعد جس طرح دوسری تنظیموں کو بحالی کی اجازت دی جا رہی ہے اسی طرح ایم کیوایم اور الطاف حسین کو بھی سیاست کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی ایک علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے، جس کی قیادت جئے سندھ کے ایک دھڑے کے رہنما شفیع برفت کر رہے ہیں۔سندھو دیش لبریشن آرمی کے نام سے جانی جانے والی عسکریت پسند تنظیم نے صوبے میں کئی دہشت گردانہ حملے کيے ہيں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعوی ہے کہ اس تحریک سے نمٹنے کے ليے ریاست نے طاقت کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے صوبے میں جبری طور پر افراد کو گمشدہ بھی کیا گیا۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بخشل تھلو کا کہنا ہے کہ ریاست کی نظر کرم صرف پنجاب پر ہی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نےبتایا کہ سندھ میں بات چیت سے پہلے ساز گار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ کم از کم ریاست یہ تو کر سکتی ہے کہ سیاسی کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ نہ کرے۔ ان کو اذیت دے کر پاگل نہ بنائے یا ان کی مسخ شدہ لاشیں نہ پھینکی جائيں۔ تو پہلے حالات ساز گار کرنے پڑيں گے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ منظور پشتین کی قوم بنائی ہوئی جماعت پشتون تحفظ موومنٹ کا ہے۔ لی ٹی ایم پر پابندی تو عائد نہیں لیکن اس کی قیادت خصوصا ایم این اے علی وزیر کے ساتھ اپنایا جانے والا اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ اسکو برداشت نہیں کیا جا رہا اور مستقبل میں اس پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم اور ٹی ایل پی کا موازنہ کیا جاسکتا ہے لیکن ٹی ایل پی کا موازنہ بلوچ و سندھی علیحدگی پسندوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اس کا موازنہ ایم کیو ایم لندن سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان تینوں جماعتوں نے ہتھیار اٹھائے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی نے بلوچ قوم پرستوں، سندھی قوم پرستوں یا ایم کیو ایم لندن کی طرح ہتھیار نہیں اٹھائے، تاہم دوسری جانب کچھ تجزیہ نگار اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ اب تک تحریک لبیک کے مظاہرین کے ہاتھوں دو درجن سے زائد پولیس والے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انکا۔سوال ہے کہ اور ہتھیار اٹھانا کسے کہتے ہیں اور اگر تحریک لبیک سے پابندی ختم ہوسکتی ہے تو پھر باقی تنظیموں کے لیے انصاف کا دور معیار کیوں اپنایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں مختلف تنظیموں پر پابندی لگانے کی روایت پرانی ہے۔ پچاس کی دہائی میں پنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی۔ ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا اور جنرل مشرف کے دور میں درجنوں مذہبی، فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی، جن میں جیش محمد، لشکر طیبہ اور سپاہ صحابہ پاکستان وغیرہ شامل تھیں لیکن ان تنظیموں پر آج بھی پابندی برقرار ہے۔

Back to top button