شیخ رشید احمد نے اپنی جان لینے کی کوشش کیوں کی؟

معروف لکھاری اور کالم نگار عطاالحق قاسمی نے انکشاف کیا ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ایک زمانے میں اپنی جان لینے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ کامیاب اس لیے نہ ہو پائے کہ جس ازار بند کو انہوں نے اپنے گلے میں ڈالا تھا وہ اتنا چھوٹا نکلا کہ یا تو صرف گردن کے گرد لپیٹا جا سکتا تھا یا پھر پنکھے کے ساتھ۔ اپنی تازہ تحریر میں عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ شیخ رشید کی اپنی زبانی منسوب ہے اور انہوں نے یہ سوشل میڈیا پر پڑھا ہے۔ لیکن قاسمی کہتے ہیں کہ مجھے سوشل میڈیا کی یہ خبر من گھڑت لگتی ہے کیوں کہ ازار بند اگر ازار شیخ صاحب کی گردن کے سائز کا تھا تو پھر پنکھا چلانے کی ضرورت نہ تھی، ایسا کرنے سے خواہ مخواہ یونٹ گرتے اور شیخ صاحب کو بل بھی زیادہ آتا۔ عطا الحق قاسمی مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ازار بند کو گردن کے گرد لپیٹ کر صرف زور سے گانٹھ باندھنے کی ضرورت تھی اور یوں ان کی غیرت کا تقاضا پورا ہو جاتا، لیکن اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے ایک منحوس خبر کو کالم کا موضوع بنایا، اللہ تعالیٰ شیخ صاحب کو اتنی زندگی دے جتنی وہ چاہتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالی ان کی عمر دراز کرے کیوں کہ اب ان جیسا صرف ایک دانہ ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ ویسے بھی ٹی وی چینلز کے اینکر اور ناظرین اتنے عرصے سے ان کی چٹ پٹی گفتگو سننے سے محروم چلے آرہے ہیں اب اس غیر حاضری کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے۔

عطاء الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ مجھے اوائل عمری ہی سے وہ خطیب اور سیاست دان پسند رہے ہیں جو اپنے خطاب کے درمیان صرف اپنی زبان کا استعمال نہ کریں بلکہ ان کے دکھائی دینے والے تمام اعضاء بھی حرکت میں نظر آئیں، وہ اداکار بھی ہونے چاہئیں، ان کے لفظوں سے ان کی اداکاری زیادہ موثر ہو، کبھی کبھار ان کے منہ سے تھوکیں نکل کر سامعین پر بھی گرنا چاہئیں، میں نے اپنی جوانی کے آغاز میں کچھ خطیب ہو بہو ایسے ہی سنے تھے، مجھے ان دنوں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا، جن کا ’’جمعۃ المبارک کو شاندار افتتاح‘‘ ہوتا تھا اور میں چند دوسرے جانبازوں کی طرح لائن میں لگے شرفاء کے سروںپر سے تیرتا ہوا کھڑکی تک جا پہنچتا تھا اور ہاتھ کھڑکی میں گھسا تو دیتا تھا مگر نکالنا مشکل ہو جاتا تھا کہ کئی اور ہاتھ بھی میرے ’’ہم رکاب‘‘ ہوتے تھے۔لیکن اگر اس روز میرے کسی پسندیدہ خطیب کے پروگرام کی خبر ملتی تو میں خطیب کی ایمان پرور اور دلربا گفتگو سننے چلا جاتا۔ مگر میں اس زمانے میں کسی ایسے سیاستدان کی تقریر سے محروم ہی رہتا جو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سے شروع ہوتی اور آٹھ دس سال بعد نہ مقرر کا پتہ چلتا اور نہ عزیز ہم وطنوں کا کہ وہ کسی نئے بحران میں مبتلا ہو گئے ہوتے تھے۔ البتہ سیاستدانوں میں میرے محبوب مقرر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو جوش خطابت میں مائیک کو مُکا مارتے اور سامعین کے علاوہ مائیک کو بھی ہلا کر رکھ دیتے تھے۔ بھٹو کبھی کبھار دوران ِتقریر گندی گالی بھی دے ڈالتے جس پر لاہوریئے عالم سرخوشی میں بھنگڑا ڈالنے لگتے۔ بہت عرصے بعد اس جوش تقریر کی روایت شہباز شریف نے بھی اپنائی وہ میرے شعر پڑھتے تھے۔ انہیں جوش آتا تو مائیک کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں گیا، مگر جب سے شہباز وزیراعظم بنے ہیں بہت سوبر ہو گئے ہیں، تقریر کے دوران اب ان کی روایتی خوش دلی بھی نہیں نظر آتی۔ اب یہ صرف ان کے قریبی دوستوں کا مقدر ہے۔

وزیراعلی پنجاب مریم نواز دشنام ترازیوں کی زد میں کیوں ہیں؟

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں، دو مقرر ایسے ہیں جو میری پسندیدگی کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک طاہر القادری تھے جو روایتی سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں تاہم الحمد للہ دینی سیاست سے پوری طرح وابستہ ہیں، وہ جب رسول اللہ ﷺسے اپنی گپ شپ روتے ہوئے بیان کرتے ہیں تو ان کے سامع بھی روتے ہیں اور بجا طور پر روتے ہیں۔ بہرحال کنٹینر میں سے ان کی جو شعلہ فشانی دیکھنے میں آئی فلک ناہنجار کو نہ اس سےپہلے اور نہ اس کے بعد سننے کو ملی۔ ان کے چہرے کی رگیں کھنچ جاتی تھیں۔ تاہم اس کے باوجود وہ یہ احتیاط کرتے کہ منہ سے نکلنے والی تھوکیں ان کے عقیدت مندوں کے چہروں پر نہ گریں بلکہ وہ یہ تھوک ٹیشو پیپر میں لپیٹ کر عقیدت مندوں کی طرف اچھال دیتے تھے اور وہ لپک کر یہ تبرک اٹھا لیتے تھے۔ آج کل ہمارے یہ شیخ الاسلام کینیڈا میں ہیں کبھی ’’ساحل سمندر‘‘ پر اپنی ویڈیو شیئر کرتے ہیں اور کبھی صبح کی سیر کی ویڈیو، چند روز پیشتر وہ جاپان گئے تھے۔ وہاں انہوں نے پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں کیا عمدہ نصیحت کی کہ آپ نے کسی قانونی مجبوری کے تحت جاپانی عورتوں سے جو شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے حقوق بھی پورے کریں اور بچوں کی تربیت اسلامی ماحول میں کریں وغیرہ وغیرہ ۔

Back to top button