کیا عمران خان سپریم کورٹ کے ہاتھوں بچ پائیں گے؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جس بھی وزیراعظم کو ایک مرتبہ بلا لیا اس کا انجام بالآخر فراغت کی صورت میں ہی ہوا، خواہ وہ نواز شریف ہوں یا یوسف رضا گیلانی۔ لہذا وزیراعظم عمران خان کی طلبی کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ان کا بھی ماضی کے وزراۓ اعظم والا انجام ہوگا یا وہ بچ جائیں گے؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق سینئر فوجی افسران کے خلاف سانحہ ای پی ایس میں کاروائی کرنے میں ناکام رہے تو عدالت کی جانب سے ان پر فرد جرم بھی عائد ہو سکتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت میں فارغ کیا تھا کیونکہ انہوں نے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے سے انکار کیا تھا۔
10 نومبر کے روز عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کو طلب کر کے انکی سرزنش تو کی لیکن انہیں اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے 4 ہفتوں کا وقت بھی دیا ہے جس کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت نے وزیراعظم کو کسی طلب کیا ہو۔ ماضی میں بھی کئی منتخب وزرائے اعظم کو کئی مرتبہ سپریم کوٹ میں طلب کیا جا چکا ہے اور ان کا انجام فراغت پر منتج ہوا تھا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کو ہدایت کی یے کہ حکومت آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ملوث اعلی سیاسی و عسکری شخصیات کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ایک ماہ میں اس حوالے سے رپورٹ تیار کرکے عدالت میں پیش کرے۔ وزیر اعظم نے بھی عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی یے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں توہین عدالت کے ایک کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا تھا۔ جب نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران مسلم لیگی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بولا تو تب سجاد علی شاہ ہی چیف جسٹس تھے۔ تاہم بعد میں سجاد شاہ کے ساتھی ججوں نے حکومتی ایماء پر بغاوت کرکے انہیں معزول کر دیا تھا۔ بعد ازاں نواز شریف وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنہیں 12 اکتوبر 1999 میں گرفتار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ تاہم پیشی سے قبل انہیں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لا انتظامیہ نے جبراً عہدے سے معزول کر دیا تھا اس لیے تکنیکی طور پر وہ حاضر سروس وزیراعظم نہیں تھے گو کہ آئینی طور پر وہی وزیراعظم تھے۔ اس کے بعد وہ بطور اپوزیشن رہنما میمو گیٹ میں سپریم کورٹ میں مدعی کے طور پر پیش ہوئے، جبکہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کردہ جے آئی ٹی میں بطور وزیراعظم بھی پیش ہوئے تھے۔ اپنی معزولی کے بعد بھی وہ دسمبر 2018 کو محکمہ اوقاف کی زمین کے مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔
بعد ازاں اپریل 2012 میں سپریم کورٹ نے تب کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے کے مطابق سوئس حکام کو خط نہ لکھنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے پر سزا سنائی تھی۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے انہیں توہینِ عدالت میں جب تک عدالت کا وقت ختم نہیں ہوتا تب تک کی سزا سنائی جس کا دورانیہ ایک منٹ سے کم تھا کیونکہ سزا سنانے کے ساتھ ہی عدالت برخاست ہوگئی۔ تاہم اس سزا کے باعث وہ سزایافتہ افراد میں شامل ہو گئے اور قانون کے مطابق سزا یافتہ فرد عوامی عہدے کا اہل نہیں۔ لہذا سپریم کورٹ کی وضاحت پر 19 جون 2012ء کو وہ پارلیمان کی رکنیت اور وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دئیے گئے۔ گیلانی اس کیس میں دو دفعہ بطور وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش بھی ہوئے تھے۔ گیلانی کی سپریم کورٹ سے برطرفی کے بعد پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم نامزد کیا تھا ۔ انہیں بھی بطور وزیراعظم این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے عدالت کو یقین دھانی کروائی کہ سپریم کورٹ ہدایات کی روشنی میں سوئس حکام کو خط لکھا جائے گا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں کی تنصیب کے بارے میں از خود نوٹس لیا اور جنوری 2013 میں بجلی گھروں کے بارے میں ہونے والے معاہدوں کے مقدمے میں راجہ پرویز اشرف سمیت 16 افراد کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔
لہذا اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان خوش قسمت ہیں کہ عدالت نے محض انہیں سرزنش کے بعد جانے دیا اور چار ہفتوں میں عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی خوش قسمتی کا ستارہ یونہی چمکتا رہے گا یا سپریم کورٹ کے ہاتھوں بجھ جائے گا؟