عمران خان نے جیل کاٹتے ہوئے حکومتی اندازے کیسے غلط ثابت کیے؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے پچھلے ایک برس کے دوران جیسے جیل کاٹی ہے اس نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ عمران کے دور حکومت میں گرفتار ہو کر جیل کاٹنے والے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے بھی حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ عمران خان نے جیل کاٹنے میں مزاحمت دکھائی ہے اور وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیدی نمبر 804 تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکاری ہے۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ میرا شمار قیدی نمبر 804 کے بدترین ناقدین میں کیا جا سکتا ہے، میں ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہیں اور نہ ہی ان کے طرز سیاست کو پسند کرتا ہوں۔ میں خان کو قوم کا مسیحا یا نجات دہندہ بھی تسلیم نہیں کرتا۔ میں نے اس حوالے سے اپنے خیالات اور سوچ کو کبھی مخفی بھی نہیں رکھا اور انکا برملا اظہار کرتا رہتا ہوں۔ مگر آج مجھے ایک اعتراف کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ قیدی نمبر 804 نے مجھ جیسے نقادوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے
حکومت کو PTI کے خلاف کریک ڈاؤن کا فائدہ ہوا یا نقصان؟
بلال غوری کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری بتایا کرتے تھے کہ عمران خان تو چھپکلی سے بھی ڈرتے ہیں۔ خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ کا دعویٰ تھا کہ جب جیل میں انہیں مخصوص دوائی نہیں ملے گی تو وہ ٹوٹ جائیں گے اور چند ہفتے بھی جیل میں نہیں گزار سکیں گے۔ذاتی طور پر میرا بھی یہی خیال تھا کہ شہزادوں کی سی زندگی بسر کرنے والے عمران خان اسیری کے ایام ثابت قدمی سے نہیں گزار سکیں گے۔ مگر انہوں نے یہ سب تخمینے اور اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ سویلین بالادستی کا سرخیل سمجھا جانے والے نواز شریف نے پانچ ماہ جیل میں گزارے تھے جبکہ عمران خان اب تک 13 ماہ کی قید کاٹ چکے ہیں۔ نواز شریف کو 6 جولائی 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی، انہوں نے 12 اکتوبر کی درمیانی شب لاہور ایئر پورٹ پر گرفتاری دی، 11ستمبر 2018ء کو بیگم کلثوم نواز کی رحلت پر انہیں پیرول پر رہائی ملی جبکہ 18ستمبر 2018ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا معطل کرکے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ اگر پیرول پر رہائی کو شمار نہ بھی کیا جائے تو مجموعی طور پر نواز شریف 66 دن جیل میں رہے۔ 24 دسمبر 2018ء کو احتساب عدالت نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید کی سزا سنائی تو وہ پھر گرفتار ہو گئے اور 26 مارچ 2019ء کو عدالت نے انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی یعنی دوسری بار انکی اسیری کا دورانیہ 90 دن پر محیط رہا اور مجموعی طور پر نواز شریف نے 156 دن جیل میں گزارے۔
بلال غوری بتاتے ہیں کہ اگر ہم سابق وزیراعظم عمران خان کی بات کریں تو انہیں 5 اگست 2023 کو لاہور میں انکی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا گیا اور پھر اڈیالہ جیل شفٹ کر دیا گیا۔ تب سے اب تک وہ اسی جیل میں قیدی نمبر 804 کے طور پر موجود ہیں۔ انہیں جیل میں 400 دن ہو چکے ہیں اور وہ گزشتہ 13 ماہ کے دوران ایک بار بھی بیمار نہیں ہوئے، کبھی ان کے پلیٹ لیٹس کم نہیں ہوئے، حالت خراب ہونے پر ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ اب آپ کہیں گے کہ عمران خان کو جیل میں سب سہولتیں میسر ہیں، انہیں باورچی دیا گیا ہے، ورزش کے لئے راہداری اور ایکسر سائز مشین فراہم کی گئی ہے، وہ ہر روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہیں، اپنے وکلاء اور پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، بیرون ملک اخبارات میں ان کے انٹرویوز شائع ہوتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی قید ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ ایک طرف سیاسی مخالفین کا یہ بیانیہ ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 کا دعویٰ ہے کہ اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، کبھی وہ یہ مضحکہ خیز بات کرتے ہیں کہ انہیں سزائے موت کے قیدیوں کیلئے مخصوص سیل میں رکھا گیا ہے، اور وہ بہت مشکل قید کاٹ رہے ہیں۔ میری رائے میں یہ دونوں بیانئے مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پسندی پر مبنی ہیں۔ عمران کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ جیل میں عام قیدی اور بالخصوص سزائے موت کے منتظر قیدی کیسی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ انہیں تو اپنی کوٹھڑی میں مرضی سے بلب جلانے کی اجازت نہیں ہوتی، انہیں شلوار میں ازار بند استعمال نہیں کرنے دیا جاتا کہ کہیں وہ خود کشی نہ کر لیں ۔جاوید ہاشمی جب اسی اڈیالہ جیل میں قید تھے تو انہوں نے ابتلا کا اس سے بھی بڑا دور دیکھا تھق۔
دوسری طرف عمران کے سیاسی مخالفین کی طرف سے ان کو مہیا جن سہولتوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اس سطح کے تمام سیاسی قیدیوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ جب نواز شریف پابند سلاسل تھے تو انہیں جیل میں ایئر کنڈیشنر بھی فراہم کیا گیا تھا لیکن عمران کو صرف روم کولر کی سہولت دی گئی۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ عمران کے سیاسی مخالفین میں محض رانا ثنا اللہ نے کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ عمران نے ان کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ عمران نے جیل کاٹنے میں مزاحمت دکھائی ہے اور وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔ ہاں البتہ اس طویل اسیری کے ان کے سیاسی شعور پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور انہوں نے کیا سیکھا، اس سوال کا جواب ملنا ابھی باقی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انہوں نے جیل میں گزارے گئے انہون نے اپنے شب و روز کس غور و فکر میں گزارے؟ کیا انہوں نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اِدراک کیا؟ کیا انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے فاشزم پر مبنی رویوں اور انداز سیاست پر نظر ثانی کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب وہ جیل سے باہر آئیں گے تو کیا ایک بدلے ہوئے سیاستدان ہوں گے؟ کیا ان کے طرز عمل اور طرز تخاطب میں بھی تبدیلی آئے گی؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران مقبولیت کی لہر پر سوار ہونے اور فوج کا آلہ کار بننے کے بجائے عوام کی طاقت سے اقتدار میں آنے کو ترجیح دیں گے یا پھر دوبارہ کنٹینر والی سیاست میں مشغول ہو جائیں گے؟ دیکھنا یہ بھی ہے کہ انہوں نے سیاسی اور فکری ارتقا کا سفر طے کیا یا نہیں؟ اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم قیدی نمبر 804 نے استقامت اور حوصلے سے جیل کاٹی، اس کا اعتراف کھلے دل سے کرنا چاہئے۔