حکومت کو PTI کے خلاف کریک ڈاؤن کا فائدہ ہوا یا نقصان؟
اڑتے تیر پکڑنے کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی اپنانے کی وجہ سے شہباز حکومت مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ پی ٹی آئی کی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی سیاہ کاریوں اور شرپسندانہ کارروائیوں پر انھیں کٹہرے میں لانے کی بجائے اپنے اقدامات کی وجہ سے حکومت خود کٹہرے میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔حکومت نے اپنے غیر مربوط اقدامات سے اسلام آباد جلسے میں زبان درازیوں اور دھمکیوں پر پی ٹی آئی پر ہونے والی تنقید کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔ لگتا ہے حکومت نے عمرانڈوز کی سیاہ کاریوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر پی ٹی آئی کو عوامی شہرت دلانے کا ٹھیکہ اپنے ذمے لے لیا ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد میں جلسہ آٹھ ستمبر کو ہونا طے پا چکا تو یہی لگتا تھا کہ سب کچھ نارمل طریقے سے ہو جائے گا اور پی ٹی آئی اس جلسے کے بعد معمول کی سیاست کی طرف بڑھ جائے گی لیکن حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے جلسے سے پہلے اسلام آباد شہر اور اس کے نواح سے گزرنے والی قومی شاہراہوں اور دیگر علاقوں سے آنے والے راستوں کو مکمل طور پر بند کرکے ناقدین کو تنقید کا موقع دیا اور اس کے ساتھ ہی جلسے سے قبل ہی مسلم لیگ ن کے رہنما پی ٹی آئی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے لگے۔تب بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ اقدامات پی ٹی آئی کی طرف سے متوقع دھواں دار تقاریر کی پیش بندی ہے اور حکومتی ترجمان ’اوفینس از دا بیسٹ ڈیفنس‘ یعنی حملہ بہترین دفاع ہے) کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔لیکن جلسے میں جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے فوج، صحافیوں اور پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز شریف کے خلاف قابل اعتراض جملے بولے تو اس کے بعد وہ ہدف تنقید بن گئے اور ان کی تقریر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
طلب میں اضافے کے بعد مولانا ڈیزل کا اپنی قیمت بڑھانے کا فیصلہ
ابھی گنڈاپور کی تقریر کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ پی ٹی آئی کے صف اول کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ سرکاری اہلکار پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کو ساتھ لے گئے جو گرفتاری سے بچنے کے لیے وہاں پر موجود تھے۔اس واقعے کے بعد توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہو گیا اور ناقدین علی امین گنڈاپور کی تقریر بھول کر پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری کے خلاف حکومت پر تنقید کرنا شروع ہو گئےجبکہ پارلیمنٹ کے اندر سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری پولیس کی بجائے کسی خفیہ ادارے کے ذریعے کروانے کی خبریں حکومت کی مزید سبکی کا باعث بنیں جس پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس واقعے پر مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔
ایسے میں سوال جنم لے رہا ہے کہ آٹھ ستمبر کو پی ٹی آئی کے جلسے اور اس کے پس منظر اور پیش منظر ہونے والے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور نقصان کس کا ہوا؟سینئر صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے پی ٹی آئی رہنماوں کو حراست میں لینے کی کارروائی اب ایک روایت بن جائے گی اور اس کا نقصان مستقبل میں موجودہ حکومت کو بھی ہو گا۔زاہد حسین کا مزیدکہنا تھا کہ آٹھ ستمبر سے پہلے جو امید پیدا ہوئی تھی کہ کچھ مفاہمت ہو سکتی ہے وہ اس کے بعد ہونے والے واقعات سے ختم ہو گئی ہے۔’نہ صرف یہ کہ اس جلسے کے بعد محاذ آرائی بڑھی ہے بلکہ اس سے تحریک انصاف کی پوزیشن کی مزید تشہیر ہوئی ہے۔ اب پورے ایوان نے کہا ہے کہ یہ غلط ہوا ہے اور حکومت کو بھی اس معاملے کو سنبھالنا پڑ رہا ہے۔زاہد حسین نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمینٹرینز کی گرفتاری سپیکر اور حکومت کی اجازت کے بغیر کیسے ممکن ہے؟’ایک بات تو یہ ہے کہ جو نقاب پوش لوگ پارلیمنٹ کے اندر آئے وہ خود سے نہیں آئے، ان کو کس نے بلایا؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب اجلاس چل رہا ہو تو اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے لیے سپیکر کی اجازت درکار ہوتی ہے؟ کیا ان گرفتاریوں کے لیے سپیکر نے اجازت دی تھی۔‘زاہد حسین نے کہا کہ ان اقدامات سے حکومت نے علی امین گنڈاپور کی تقریر سے توجہ ہٹا کر پھر سے خود پر تنقید کا موقع فراہم کر دیا ہے۔زاہد حسین کے خیال میں مزید سیاسی تقسیم اور حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے فریقین کو مفاہمت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘’قانون کی حکمرانی کے لئے کام کیا جانا چاہیے۔ اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ آپ کسی کو جلسے یا بات کرنے کے حق سے نہیں روک سکتے۔‘’اگر کسی فریق کو بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ملتی تو یہ امر نقصان دہ ہے۔‘
سینیئر تجزیہ کار اور صوبہ پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق 8 ستمبر کے بعد ہونے والے واقعات سے پاکستان میں سیاسی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔’پچھلے دو تین دنوں کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں قوت برداشت مزید کم ہوئی ہے اور سیاست مزید منفی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘
حسن عسکری نے کہا کہ ’حکومت ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مخالف کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ریاستی ادارے غیرذمہ دارانہ اقدامات کر رہے ہیں۔ اور حکومت اور ریاستی ادارے دونوں مل کر تحریک انصاف کو دبانا چاہ رہے ہیں۔‘’ہر ادارہ سیاست کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان میں تقسیم بہت بڑھ گئی ہے اور آزادانہ رائے اور تجزیہ اب باقی نہیں رہا۔‘حسن عسکری نے کہا کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی تمام تر کوشش کے باوجود انہیں کامیابی نہیں مل رہی۔’جو اقدامات وہ مل کر کر رہے ہیں ایسے اقدامات کو کبھی کامیابی نہیں ملتی۔‘