عمران خان نے پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ کیوں چھوڑی؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن سے دست برداری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے لیے بیرسٹر گوہر علی خان کی نامزدگی کے فیصلے پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان نے تحریک انصاف کے انتخابات سے مکمل آؤٹ ہونے کے خطرے کے پیش نظر خود کو پارٹی کی قیادت سے الگ کر لیا ہے تاکہ الیکشن میں تحریک انصاف کا وجود برقرار رہے۔
خیال رہے کہ عمران خان کی طرف سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عمران خان جیل میں قید ہیں اور انتخابات میں ان کی شرکت غیر یقینی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 20 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ انتخابات نہ کروانے کی صورت میں پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو سکتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی سیاست سے باہر نہیں ہونا چاہتی اسی بنا پر عمران خان کے پارٹی چیئرمین کے عہدے سے دست برداری جیسا اہم فیصلہ کیا گیا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے یہ انتخابی میدان کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ اس سے واضح ہوا کہ ایک بڑی جماعت الیکشن میں حصہ لے گی اور وہ انتخابی عمل سے باہر نہیں جانا چاہتی۔
سہیل وڑائچ کے بقول انٹرا پارٹی انتخابات اور نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے شکوک و شبہات ختم ہو گئے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کی انتخابی میدان میں رکاوٹیں کم ہو سکتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوں گی۔
دوسری جانب سینئر صحافی اور مدیر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرواتی تو الیکشن کمیشن بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کر سکتا ہے اور عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا بھی الیکشن کمیشن کی صوابدید پر ہو گا۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی قیادت سونپنے کے بعد عمران خان کی جماعت پر گرفت کمزور ہو گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نئے چیئرمین کی تقرری کا فیصلہ صرف قانونی رکاوٹوں کے باعث کیا گیا ہے اور پارٹی عمران خان کی پالیسی پر ہی چلے گی اور حتمی فیصلہ بھی ان ہی کا ہو گا۔اسی بنا پر شاہ محمود قریشی اور پرویز الہی جیسے سینئر سیاست دانوں کو چھوڑ کر ایک غیر معروف شخص کو پارٹی چیئرمین بنایا جا رہا ہے تاکہ فیصلہ سازی عمران خان کے ہاتھ میں ہی رہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی سیاسی تجربہ رکھنے والا پارٹی کا چیئرمین بنتا ہے تو یقینی طور پر وہ جماعت کے امور میں اپنی سمجھ بوجھ کا استعمال بھی کرے گا جو کہ کئی مواقع پر عمران خان کی سوچ سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کے جیل میں جانے سے ان کی جماعت پر گرفت پہلے ہی کمزور پڑ چکی ہے اور جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی قیادت میں دو الگ دھڑے بننے سے بھی پارٹی متاثر ہوئی ہے۔ عمران خان کے وکلا اور خاندان کے افراد کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آنے سے جماعت کی مستقبل کی حکمتِ عملی کے حوالے سے ابہام پائے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سنگین نوعیت کے مقدمات کے باعث عمران خان کی قانونی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق بیرسٹر گوہر علی خان اگرچہ غیر معروف ہیں اور سیاسی تجربہ بھی نہیں رکھتے ہیں اور پارٹی کی سینئر قیادت اور سیاسی شخصیات کو چھوڑ کر عمران خان کی جانب سے اپنے وکیل کا پارٹی چیئرمین کے لیے انتخاب بہت سے سوال رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم اور مسلم لیگ (ن) نے راجہ ظفر الحق کو پارٹی چیئرمین بنایا تھا اور اب دیکھتے ہیں کہ گوہر علی خان کتنے عرصے تک پی ٹی آئی کے چیئرمین رہ سکتے ہیں۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے جو پی ٹی آئی میں بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاست دان کے بجائے وکیل کو پارٹی چیئرمین کیوں بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی بہت سے سیاسی چہرے موجود ہیں جنہیں قانونی مشکلات کا سامنا بھی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وکیل چیئرمین کے انتخاب سے پی ٹی آئی کی انتخابی حکمتِ عملی مزید واضح ہو گئی ہے کہ عام انتخابات میں 70 فی صد سے زائد پارٹی ٹکٹس وکلا کو دیے جائیں گے۔
سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ وکیل کو پارٹی چیئرمین بنانے کے بعد جماعت کے سیاسی رہنما سوچیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اس پر کسی حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آئیں۔