عمران نامی ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا بچنا ناممکن کیوں ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ نواز شریف حکومت سے نکالے جانے کے باوجود آج بھی ملکی سیاست کا محور ہیں جبکہ عمران خان کی سیاست اسٹببلشمینٹ کے نیوٹرل ہوتے ساتھ ہی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے اور وینٹی لیٹر پر چلی گئی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران نامی ٹیسٹ ٹیوب بے بی مصنوعی آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
اپنے تازہ تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ بہت پرانی بات نہیں ہے، ابھی چند برس پہلے کا قصہ ہے کہ جو صورت حال آج عمران خان کو درپیش ہے اسی طرح کی صورت حال کا نواز شریف کو سامنا تھا۔ ان کا اقتدار بھی خطرے میں تھا اور عمران خان کی کشتی بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ مشکل صورت حال میں ان دو وزراء اعظموں کے رد عمل پر بات کرنا مقصود ہے۔ عمار بتاتے ہیں کہ جب نواز شریف کو ایک بے بنیاد کیس میں انصاف کا قتل کر کے نکالا گیا تب ملکی معیشت ترقی کر رہی تھی، ترقیاتی پراجیکٹ لگ رہے تھے، بے روزگاری میں کمی ہو رہی تھی، عوام کی بڑی تعداد نواز شریف کے ساتھ تھی۔ لیکن عمران خان کی رخصت کے دنوں میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے۔ افراط زر آسمان کو چھو رہا ہے، مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور ترقی کے اشاریے ترقی معکوس دکھا رہے ہیں لہذا لوگوں کی ایک بڑی تعداد کپتان کی ناکام حکومت سے نجات کی خواہاں ہے۔
عمار مسعود کے بقول، نواز شریف کو نکالنے کے لئے عدلیہ کا قبیح کردار سامنے آیا تھا۔ ثاقب نثار اور آصف کھوسہ جیسے مکروہ لوگوں نے نواز شریف کو نکالنے کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کی۔ وہ فیصلے دیے گئے جن کا انصاف اور قانون سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ دوسری جانب عمران خان کے خلاف ابھی تک عدلیہ کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ فارن فنڈنگ کا کیس التوا کا شکار ہے۔ قاضی شہر نے عمران خان کے خلاف کوئی کھلم کھلا مہم ابھی تک شروع نہیں کی۔ ایک جانب نواز شریف نے عدالتوں اور نیب میں سینکڑوں پیشیاں بھگتیں۔ ان کی توہین کی گئی، تصاویر لیک کی گئیں جبکہ عمران خان کو ابھی تک کسی کیس میں نہ طلب کیا گیا ہے نہ ان کی سرعام توہین کی گئی۔
عمار کہتے ہیں کہ نواز شریف کو نکالنے میں فوج کا کردار بہت واضح تھا۔ کبھی معیشت کی بری کارکردگی پر پریس کانفرنس، کبھی ووٹ کی طاقت سے دشمنوں کو شکست دینے کا بیان، کبھی تبدیلی کے سال کی نوید سنائی گئی۔ حتیٰ کہ ان پر بنائے گئے جھوٹے کیس کی تحقیقات بھی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے افسران پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے کروائی گئیں۔ لیکن عمران خان کو نکالنے میں فوج کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا ماسوائے اس کے کہ انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وینیاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف نے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ کا سفر اختیار کیا۔ عوام کو اعتماد میں لیا۔ اور مجھے کیوں نکالا کی مہم شروع کی۔ اس دوران ہر مقام پر انہوں نے آئین کی بالا دستی کی بات کی، ووٹ کی عزت کا درس دیا اور پارلیمان کی بالا دستی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب آج عمران خان پر وہی دن آ رہے ہیں تو کسی نے ان کے منہ سے ایک لفظ بھی آئین کی حرمت اور ووٹ کی عظمت کے بارے میں نہیں سنا۔ ان کے زیادہ تر اقدامات سپیکر سے غیر قانونی احکامات منوانے، لوگوں کو دھمکانے اور اسٹیبلشمنٹ کو منانے سے متعلق ہیں۔ نواز شریف نے اپنی برطرفی کے بعد ایک دفعہ بھی لوگوں کو تشدد پر نہیں اکسایا۔ جی ٹی روڈ کا سفر کر کے جب وہ لاہور پہنچے تو لوگوں کے جم غفیر میں آگ لگا سکتے تھے مگر اس طرح کی سیاست سے اجتناب کیا۔ جب کہ آج کل خان صاحب ہر لمحہ لوگوں کو تشدد پر آمادہ کر رہے ہیں کبھی سندھ ہاؤس پر حملہ، کبھی ڈی چوک کو منحرفین کے لئے مقتل بنانے کا اعلان اور کبھی دھرنوں اور پہیہ جام کی دھمکیاں۔ نواز شریف کی یقیناً آرمی چیف سے بارہا فون پر اہم موضوعات پر بات ہوئی ہو گی مگر اس گفتگو کا طعنہ یا ریفرنس کبھی کسی جلسے میں نہیں دیا۔ عمران خان کو جنرل باجوہ نے کال کی کہ مولانا کے لئے توہین آمیز الفاظ استعمال نہ کریں تو عمران خان نے فوری طور اس بات کو سیاسی مقاصد کے لئے جلسے میں اعلان کے طور استعمال کیا۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ ہم نواز کے اقتدار سے جانے سے پہلے اور جعلی مقدمات میں قید بھگتنے سے لے کر آج تک انکے کسی ایک ساتھی نے نواز شریف سے بے وفائی نہیں کی۔ دوسری جانب عمران کی پارٹی کے لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر ہے ہیں۔ اگر لوگوں کو آزادی سے اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملے تو ایک کثیر تعداد عمران خان کو چھوڑنے پر آمادہ نظر آئے گی۔ اسی طرح نواز شریف کو نکالنے سے پہلے میڈیا کی بساط ایسے بچھائی گئی کہ ایک باقاعدہ سازش اور ایجنڈے کے تحت بے ضمیر اینکر اور زر خرید تجزیہ کار ہر پروگرام میں نادیدہ کرپشن کے ثبوت پیش کرتے رہے۔ نواز شریف کو برسوں تک مجرم ثابت کیا گیا۔ عمران کو یہ سہولت میسر ہے کہ یہ وہی میڈیا ہے جو ان کی توصیف پر برسوں سے مامور تھا۔ بہت سے ہم خیال اور ہم درد اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ یہ میڈیا عمران خان کی حکومت کو لانے کی لئے سجایا گیا تھا۔ اب بھی یہ کڑے دل سے عمران کی نا اہلی تو بتاتے ہیں مگر ان کے لئے پھر بھی ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
عمار یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف کو نکالے جانے سے آج تک ان پر کرپشن کی ایک پائی بھی ثابت نہیں ہو سکی۔ اسی وجہ سے انہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام پر نکالا گیا۔ دوسری جانب عمران کا بال بال کرپشن میں دھنسا ہوا ہے۔ فارن فنڈنگ، فیکٹ فوکس کی رپورٹ، شوکت خانم کے اکاؤنٹس میں گھپلا اور وزراء کی کرپشن میں حصے کا اب سب کو علم ہو گیا۔ نواز شریف کو نکالنے کے بعد ان کا ساتھ زیادہ تر ان لوگوں نے دیا جو جمہوریت پسند تھے، جو آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے اور ووٹ کی عزت چاہتے تھے۔ لیکن عمران کے ساتھ وہی لوگ بچے ہیں جن کا سیاسی مستقبل اب کے سوا نہیں ہے اور ان کی واحد کوالیفکیشن گالم گلوچ ہے۔
نواز شریف نے ”مجھے کیوں نکالا“ کی مہم سے لے کر آج تک کسی سے بدزبانی نہیں کی، کسی کو گالی نہیں دی جبکہ عمران کی سیاست گالی سے شروع ہوتی اور الزام پر ختم ہوتی ہے۔
عمار مسعود کے بقول جب نواز شریف کو نکالا گیا تو انہوں نے اس کا الزام کسی دوسرے ملک کو نہیں دیا، خود اپنی جنگ لڑی جبکہ عمران نے امریکہ سے لے کو یورپی یونین تک کو الزامات دیے اور خارجہ کی سطح پر پاکستان کے مقدمے کو مزید خراب کیا۔ انکا کہنا ہے کہ نواز شریف نے کبھی فوج کے ادارے کے خلاف بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ چند کرداروں کے نام لئے، جبکہ عمران نے تو نیوٹرل ہونے پر پوری فوج کو ہی جانور کہہ دیا۔ تضادات تو بہت ہیں مگر اس آخری بات پر بات ختم کرتے ہیں کہ نواز شریف حکومت سے نکالے جانے کے باوجود سیاست سے نہیں نکالے جا سکے اور آج بھی سیاست کا محور ہیں جبکہ عمران خان کی سیاست ایمپائیر کے نیوٹرل ہوتے ساتھ ہی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔