عمران کی جانب سے جنرل عاصم منیر پر دباؤ ڈالنے کا آغاز

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کے ایک ماہ بعد اب سابق وزیراعظم عمران خان نے دوبارہ سے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ انکی جماعت کو دبانے کیلئے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران نے الزام عائد کیا ہے کہ انکے تین اراکین پنجاب اسمبلی پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا تاکہ وزیراعلی پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ تو چلے گئے لیکن ان کا سسٹم اب بھی چل رہا ہے، بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوج میں ایک ہی شخص کا حکم چلتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان یہ الزامات عائد کر کے بالواسطہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ یاد رہے کہ خان صاحب ماضی میں بھی جنرل باجوہ پر الزامات لگا کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

عمران خان کے نئے چیف آف سٹاف شبلی فراز نے بھی ایسا ہی الزام عائد کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ سابقہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پی ٹی آئی مخالف پالیسیوں کا تسلسل اب بھی جاری ہے کیونکہ اہم ترین عہدوں پر اب بھی جنرل باجوہ کے لوگ ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے شکایات کی وجوہات بھی بیان کیں۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ کے کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔ شبلی فراز نے نئی اسٹیبلشمنٹ کو بالواسطہ دھمکی دیتے ہوئے کہا عمران خان موجودہ آرمی چیف کو کچھ وقت دیں گے تاکہ وہ اپنے عہدے پر جم جائیں اور پھر ہماری طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کے گھر جانے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کو امید تھی کہ اسٹیبلشمینٹ سے معاملات میں بہتری آئے گی لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا۔

تاہم شبلی فراز شاید بھول گئے کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری رکوانے کیلئے جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے ساتھ مل کر آخری دن تک کوششیں کیں۔ خود جنرل باجوہ نے بھی سینئر صحافی جاوید چوہدری کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیا ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کی بجائے جنرل ساحر شمشاد کو نیا آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کی سمری ایوان صدر بنائے جانے کے بعد بھی عمران خان نے گند ڈالنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فواد چوہدری نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں نئے آرمی چیف کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ فوج واقعی غیر سیاسی ہوگئی ہے چونکہ اب تک اسکے سیاست میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے۔

دوسری جانب عمران کے چیف آف سٹاف شبلی فراز نے سینئر صحافی انصار عباسی سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششوں، پیپلزپارٹی میں باپ کے ارکان کی شمولیت، اور اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشنز ملتوی کیے جانے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا ہے، انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے اراکین پنجاب اسمبلی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ میں حصہ نہ لیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی جوڑ توڑ کے واضح اشارے ہیں۔

شبلی فراز نے عمران کی اس رائے کی توثیق کی کہ ہم جب بھی اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ایک شخص یعنی آرمی چیف ہو ہوتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران یا پی ٹی آئی نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے کبھی رابطہ کیا تاکہ اپنے تحفظات اُن تک پہنچا سکیں، اس پر شبلی فراز نے کہا کہ ہمارا موجودہ چیف سے کوئی رابطہ نہیں، شبلی فراز نے کہا کہ اگرچہ کمان کی تبدیلی کے بعد اب معاملات تبدیل ہونا چاہئے تھے لیکن پی ٹی آئی نئے چیف کو وقت دینا چاہتی ہے تاکہ وہ جم جائیں اور اپنی فیلڈنگ مقرر کر لیں۔

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ گفتگو میں پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئے آرمی چیف عاصم منیر جنرل باجوہ کی پرانی ٹیم کو آئی ایس آئی سے نکال باہر کریں گے تاکہ فوج کو مکمل طور پر سیاسی کیا جا سکے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس خوش فہمی ہے کس وجہ سے مبتلا ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے۔پہلے عمران خان نے لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ کا سیٹ اپ اب بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ایک شخص کا نام ہے کیونکہ اس میں چین آف کمانڈ کا سسٹم چلتا ہے۔

Back to top button