قاضی فائز عیسیٰ نے عمر عطا بندیال کا غلط فیصلہ درست کیسے کیا؟
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کےآرٹیکل 63 اے بارے سپریم کورٹ کا 2022 کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے بعد جہاں آئین کا ارٹیکل 63 اے اپنی ’اصلی حالت‘ میں بحال ہو گیا ہے وہیں اب ارکان پارلیمنٹ پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ووٹ دے سکیں گے۔ البتہ انہیں نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق وقتی طور پر تو حکومت کو اس فیصلے سے ریلیف مل گیا ہے تاہم اس فیصلے کے دور رس نتائج کیلئے وفاقی حکومت کو آرٹیکل 63 اے بارے وضاحتی قانون سازی کر لینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی عدالت ذاتی و سیاسی مفادات کیلئے اس آرٹیکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کر سکے کیوں کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی قانون سازی نہ کرنے پر سپریم کورٹ کا بڑا بینچ اس فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
خیال رہے کہ 2022 میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے تشریح کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد یا آئینی بل پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کو گنا ہی نہیں جا سکتا جب کہ ایسا کرنے والا رکن نااہل بھی قرار پائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے۔ تاہم اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس بندیالی فیصلے کو ہی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے مختصر اور متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کا ووٹ دینے اور اس ووٹ کو نہ گننا آئین کی روح کے منافی ہے۔ اس سے نہ صرف آرٹیکل 63 اے کی تشریح غلط انداز میں کی گئی ہے بلکہ تحریک عدم اعتماد کا راستہ بھی روکا گیا ہے۔‘سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کے بعد ارکان پارلیمنٹ اپنی مرضی سے کسی بھی آئینی ترمیم کی حمایت یا مخالفت کر سکتے ہیں تاہم پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف جانے کی صورت میں انہیں نا اہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ ’2022 میں سپریم کورٹ نے آئین سے متعلق ایک شق کی تشریح کرتے ہوئے اس میں ایک اضافہ کر دیا تھا جو کہ صرف اور صرف پارلیمنٹ کا ہی اختیار تھا۔‘’اب بھی اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے تو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کرتے ہوئے اس کی مزید وضاحت کرے اور اس فیصلے کو مکمل آئینی تحفظ دے بصورت دیگر یہ فیصلہ زیادہ عرصے تک قابل عمل نہیں ہوگا۔‘
بلاول بھٹو آئینی ترامیم کا جھنڈا لے کر میدان میں کیوں نکلے ہوئے ہیں ؟
اس حوالے سے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آئین پاکستان سے ایک اور تشریح کے نام پر تحریف کو کالعدم قرار دیکر اپنے حلف کا حق ادا کردیا ہے۔ فیصلے کے بعد آرٹیکل 63۔اے کی تشریح آئین کے اصل متن کے مطابق ہوگئی ہے،احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ آئین کو جو مسخ کیا گیا تھا اس کو دور کردیا گیا ہے ۔ اب اس کی درست تشریح ہوگی ایسی تشریح نہیں ہوگی کہ جو آئین کو ہی بدل دے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کو لمبا نہیں کھینچا اور دو تین سماعتوں میں ہی فیصلے تک پہنچ گئے۔
قانونی ماہر بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا تھا کہ متفقہ فیصلے نے 2022 کے تین دو کے اکثریتی فیصلے کی صریح غلطی کو درست کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ قانون، دستور اور بین الاقوامی روایات کے عین مطابق ہے پوری دنیا میں عدم اعتماد کی صورت میں پارلیمان کا ووٹ تو شمار ہوتا ہے لیکن بعد میں بعض اوقات ان میں سے کسی کو نااہل کیا جاسکتا ہے۔ ظفر اللہ خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جمعرات 3 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلے میں جسٹس عمر عطا بندیال کے 2022 کے تین دو کے اکثریتی فیصلے کو درست کیا ہے۔ جس میں عمراندار ججز نے آئین کو دوبارہ لکھ دیا تھا ۔
اس حوالے سے ماہر قانون جہانگیر جدون کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ درست ہے اور آئین کے عین مطابق ہے تاہم اس فیصلے کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم نے 2022 میں بھی یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے بینچ نے آئین ری رائٹ کیا ہے۔ اب بھی آئینی ماہرین کی اکثریت اس فیصلے کو درست مانتی ہے۔ لیکن جب پارلیمنٹ میں ایک عدالتی اصلاحات کا بل لانے کی باتیں ہو رہی ہوں ایسے میں پہلے آرڈیننس کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل میں تبدیلی اور پھر تین کی بجائے دو ججوں کی کمیٹی کی جانب سے ہم خیال ججوں کا ایک بینچ بنانے سے تاثر بہتر نہیں گیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اب آرٹیکل 63 اے اپنی اصلی حالت میں بحال ہو چکا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ڈی فیکشن بارے آرٹیکل پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنائیں۔ تاہم بینچ کی تشکیل کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات پر سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’عدالت اس معاملے میں واضح کر چکی ہے کہ کوئی بھی وکیل عدالت کو بینچ کی تشکیل سے متعلق ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔‘
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن کے ارکان کے ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں اب حکومت کو یہ خدشہ نہیں رہا کہ ان ارکان کے ووٹ گنے نہیں جائیں گے۔ جس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئینی ترمیم کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔