مشرف کے سنہری دور کے بعد کپتان کے سنہری دور کا ڈھکوسلہ

پاکستان میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے نام نہاد سنہری دور کے بعد اب سوشل میڈیا پر عمران خان کے نئے پاکستان کے سنہری دور کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں اسٹیبلشمینٹ نے مشرف کو عوام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا اسی طرح اب اسٹیبلشمنٹ اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران جان کو ملک کے لئے ناگزیر ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کپتان کی اس نام نہاد تبدیلی کی قلعی انکے سور اقتدور میں ہی کحلنا شوع ہو چکی ہے جس کا ٹریلر عوام پچھلے ڈھائی سال سے ہونے والی تباہی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کے حامی نہ صرف یہ سمجھتے ہیں بلکہ اس کا پرچار بھی کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کا دور ایک سنہری دور تھا جس کے بعد ایک ڈاکو کا دور آیا انکا کہنا یے کہ 2018 کے الیکشن کے بعد سے ایک ایمان دار اور روشن خیال عمران خان کا سنہری دور حکومت چل رہا ہے جہاں سب اچھا ہے۔ ساون کے ان اندھوں کا کہنا کہ ملک نے مشرف کے دور میں ترقی کی تھی یا عمران خان کے دور میں ترقی کر رہا ہے۔ لیکن یہ سوچ اصل میں سوشل میڈیا کی پیدا کردہ ہے۔ مشرف بھی قوم کو یہی بتایا کرتا تھا اور آج عمران خان بھی یہی یقین دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے ذی شعور لوگ اس سیاسی تصور سے اتفاق نہیں کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کی منتخب کردہ انجنیئرڈ اور نقلی جمہوریت میں اقتدار اُن ہاتھوں میں تھا جن میں جان ہی نہ تھی، چاہے وہ ظفراللہ جمالی ہو، چوہدری شجاعت ہو یا شوکت عزیز ہو۔ ملک کی اصل سیاسی قیادت جلا وطن تھی اور یہاں وہاں سے اکٹھے کئے ہوئے بھاڑے کے ٹٹووں پر مشتمل حکومت کو نام نہاد عوام کی منتخب حکومت قرار دے دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں پہلے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور پھر کچھ عرصے کے لیے چوہدری شجاعت کو۔ ان کے بعد شوکت عزیز کو لایا گیا، جنہیں مشرف حکومت سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ انہیں امپورٹ کرکے پہلے وزیر خزانہ بنایا اور پھر اچانک وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جب یہ امپورٹڈ صاحب ملک چھوڑ کر گئے تو بے انتہا لوڈشیڈنگ اور آٹے چینی کا بحران جنم لے چکا تھا۔ یہاں تک کہ چوہدری شجاعت حسین یا پرویز الہی سے 2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کی بدترین شکست کی وجہ پوچھیں تو وہ الزام پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی معیشت کُش پالیسیوں پر ہی دھرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مشرف کے اقتدار کے دس سالوں میں بجلی، پانی اور دیگر مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی جس کا خمیازہ عوام آج دن تک بھگت رہے ہیں۔ مشرف اقتدار بھی رکھتے تھے اور اختیار بھی۔ وردی، بندوق اور بوٹ سب کچھ تھا۔ تاثر یہی دیا گیا کہ معیشت صرف ’ہم‘ ہی ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح ملک کا بیڑہ غرق کیا وہ آج سب کے سامنے ہے۔

2007 میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان میثاقِ جمہوریت طے پایا اور حقیقی نمائندہ سیاسی قیادت واپس آئی تو دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو دن دہاڑے بیچ چوراہے شہید کر دیا گیا۔ بعد ازاں پیپلزپارٹی کو مشرف دور کا گند صاف کرنا پڑا اور پھر ن لیگ نے ملک کو مصائب کی دلدل سے نکالنے کی سعی کی مگر ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ذریعے انہیں بھی اقتدار سے بیدخل کردیا۔ بعد ازاں بقول نواز شریف، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے 2018 کے الیکشن میں بد ترین دھاندلے کے ذریعے اپنے سلیکٹڈ عمران خان کو اقتدار دلوا دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک مشرف دور کی صورتحال اور آج کی تبدیلی سرکار میں کئی مماثلتیں نظر آتی ہیں۔ مشرف نے بھی صدر اور آرمی چیف ہوتے ہوئے بڑے مکے لہرائے تھے لیکن جب اسکی ناکام حکومت نے عوام کو ذلیل و خوار کر دیا تو اس نے اپنی ناکامی پچھلوں پر ڈال دی۔ آج عمران خان بھی پرویز مشرف کی پیروی میں اپنی نااہلی اور ناکامی پچھلوں پر ڈال رہے ہیں حالانکہ انہیں اقتدار میں آئے اب تیسرا برس مکمل ہونے کو ہے۔ بقول کپتان، تحریک انصاف نے 90 دن میں بنیادی تبدیلی لانی تھی لیکن اب انکے اقتدار کے ایک ہزار دن مکمل ہونے کو ہیں اور کپتان فرماتے ہیں کہ میرے پاس کوئی جادو کا بٹن نہیں تھا جس کو میں دباتا اور صرف تین سالوں میں پاکستان بہتر ہو جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ ڈالر اُوپر اور حکومت کا گراف روز بروز نیچے جا رہا ہے۔ مہنگائی میں روز بہ روز ہوتے اضافے کے بعد عوام کا حکومت سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور لوگ کپتان اور اسکے کانے والوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت نے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض لینے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے مگر وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں پاکستان نے 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ خان صاحب 29 ارب ڈالر قرضہ لے کر بیس ارب ڈالر واپس کرنا کہاں کی چالاکی اور ہوشیاری ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ باقی کا 10 ارب ڈالر کہاں گیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے قرض تو واپس کیا ہے لیکن اس بیرونی قرض کو اتارنے کے لیے اس نے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی رقم اس وقت 115 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2020 تک ملک کا مجموعی قرض 115.756 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔

اج عمران خان کی نام نہاد تبدیلی حکومت کی کارکردگی صرف سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہے اور جس طرح مشرف کو ملک کے لیے ضروری قرار دیا جاتا تھا، اسی طرح عمران خان کو ناگزیر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے لگتا یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے سلیکٹڈ کو پرویز مشرف کے سیکوئل کے طور پر متعارف کروایا ہے لہذا جس طرح مشرف نے ملک کو تباہ کیا اسی طرح عمران خان بھی کسریں پوری کررہے ہیں اور تاثر یہ دیتے ہیں کہ ملک کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تباہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button