’’پاکستان، بھارت میں ناقابل برداشت گرمی کی وارننگ جاری‘‘

پاکستان اور بھارت میں ہر سال ہی موسم گرما کافی شدید ثابت ہوتا ہے اور ہیٹ ویو سے کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے لیکن نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ آئندہ موسم گرما کے دوران گرمی اس حد تک تیز ہوگی کہ انسان کی قوت برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اس صدی میں پاکستان، انڈیا اور دنیا کے چند بڑے شہروں کے اندر دو ارب سے زائد افراد کو ناقابل برداشت حد تک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جریدے پی این اے ایس (PNAS) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نئی دہلی اور شنگھائی سے لے کر لاگوس اور شکاگو تک دنیا کے کچھ بڑے شہروں کو سب سے زیادہ سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔پین سٹیٹ کالج آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ، پرڈو یونیورسٹی کالج آف سائنسز اور پرڈو انسٹی ٹیوٹ فار اے سسٹین ایبل فیوچر کی تحقیق کے مطابق جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا، امریکہ کے مڈ ویسٹ جیسے خطوں میں اربوں افراد کو طویل دورانیے کی ہیٹ ویو میں زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی۔جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے لیے صورت حال خصوصی طور پر سنگین ہو جائے گی جو حالیہ برسوں میں موسمیاتی بحران کی وجہ سے پہلے ہی شدید گرمی کو دیکھ چکے ہیں اور اگر عالمی درجہ حرارت میں موجودہ سطح سے دو ڈگری سیلسیس یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے تو گرمی اتنی شدید ہو سکتی ہے کہ ایسے علاقے قدرتی طور پر خود کو ٹھنڈا نہیں کر سکیں گے۔پرڈو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف میتھیو ہوبر کے مطابق یہ بہت پریشان کن ہے، اس سے بہت سارے لوگوں کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت پڑے گی، اقوام متحدہ کی 2022 کی ایمیشن گیپ رپورٹ کے مطابق موجودہ پالیسیوں کے تحت دنیا 2100 تک درجہ حرارت میں 2.8 سیلسیس اضافہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اگرچہ تقریباً 200 ممالک کی جانب سے دستخط کیے گئے تاریخی پیرس معاہدے میں درجہ حرارت کو 1.5 سیلسیس تک محدود کرنے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اگرچہ پاکستان، انڈیا اور خلیجی ممالک حالیہ برسوں میں مرطوب گرمی کی خطرناک سطح کو چھو چکے ہیں، اگر زمین گرم ہوتی رہی تو دنیا کے دیگر بڑے شہر بھی متاثر ہوں گے، چار سیلسیس درجہ حرارت پر یمن کے شہر الحدیدہ میں ہر سال تقریباً 300 دن ممکنہ طور پر ناقابل برداشت مرطوب گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔مطالعہ ڈاکٹر ہوبر، جارج میسن یونیورسٹی کے آب و ہوا کے ماہر ڈینیئل ویسیلیو اور دیگر سائنس دانوں کی ماضی کی تحقیق پر مبنی ہے، جس میں وہ نقطہ جاننے کی کوشش کی گئی جہاں گرمی اور نمی مل کر انسانی جسم کی حدِ برداشت کو سائے یا ایئر کنڈیشننگ جیسی ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر بڑھاتے ہیں۔ایک دہائی بعد، ڈاکٹر ویسیلیو کی سربراہی میں امریکی سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ڈاکٹر ہوبر کے نظریے کو آزمایا اور نوجوان، صحت مند بالغوں کو زیادہ ویٹ بلب درجہ حرارت والے ماحولیاتی چیمبروں میں رکھا، انہیں معلوم ہوا کہ یہ حد کم یعنی 30 اور 31 سیلسیس کے درمیان تھی۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروین سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی سائنس دان جین بالڈون کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے یہ 35 سیلسیس کی حد سے کہیں زیادہ گھمبیر صورت حال ہے، نئی تحقیق نے ویٹ بلب کے خطرناک درجہ حرارت کے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات میں اضافہ کیا ہے۔سائنسز ایڈوانسز میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں اس قسم کے نتائج تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر ویسیلیو کی حد کے ساتھ موسمیاتی سٹیشن کے اعداد و شمار اور آب و ہوا کے ماڈلز کا استعمال کیا گیا کہ معتدل گلوبل وارمنگ کے تحت خطرناک مرطوب گرمی کی جغرافیائی حد اور تعدد میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔