پاکستانی عدلیہ کی زیادتیوں کو تسلیم کرنے والا پہلا جج

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت قرار دیے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے پہلے جج ہیں جنہوں نے ماضی میں عدلیہ کو منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی پر لٹکانے اور اقتدار سے نکالے جانے جیسے جرائم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشل مرڈر سے لے کر نواز شریف کی نااہلی تک کے متنازعہ فیصلوں میں عدلیہ کے کردار کا احاطہ کیا۔ تاہم قاضی فائز عیسیٰ نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کی پامالی کا الزام اداروں پر دھرنے کی بجائے افراد پر تنقید کریں۔
کانفریس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اداروں میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور عوام کا حق ہے کہ ان کو غلط فیصلوں پر جج کریں مگر ایسا کرتے وقت وہ پورے ادارے کو تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔ جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ججوں کو ایک فرد کے طور پر جج کیا جائے اور ان کی مذمت کی جائے مگر سپریم کورٹ کی بطور ادارہ مذمت کرنے سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن جمہوریت کے تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ ان سب اداروں کو عوام کے منتخب نمائندوں کے زیر سرپرستی چلایا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ تنقید کا خیر مقدم کیا ہے اور کبھی کسی کو توہین عدالت کا مرتکب نہیں ٹھہرایا، مگر اداروں پر تنقید سے احتیاط برتی جائے کیوں کہ اداروں کے بغیر ملک بکھر جاتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سارے وزرائے اعظم اپنے عہدے سے ہٹا دیے گئے یا ان کو مار دیا گیا جن میں لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔ لیکن انہیں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے عدالتوں سے انصاف نہیں ملا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں سول کورٹ نے کیا تھا، لیکن ان کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ ان کا کیس براہ راست ہائی کورٹ میں لگایا گیا اور سپریم کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا حالانکہ قانون کے مطابق یہ مقدمہ سیشن کورٹ سے شروع ہونا چاہیے تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا، لیکن اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کوچیلنج کیا، جمہوریت پر تیسرا حملہ ضیاء الحق نے کیا تھا جس نے آئین پامال کر دیا مگر عدلیہ کی جانب سے اسکے خلاف دائر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا گیا، چوتھی بار مشرف نے آئین توڑا، لیکن سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینے والے جج حضرات خود بھی سرکار کے تنخواہ دار ملازم تھے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا ایک اور وزیر اعظم کو صرف اسلئے نااہل کر دیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، میں اس فیصلے پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ ابھی زیر التوا ہے لیکن فیصلے میں لکھا گیا کہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی اس کے بارے میں اپنے گوشواروں میں نہیں بتایا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہ بتا کر سچ چھپایا گیا اس لیے آپ اچھے مسلمان نہیں رہے، پھر کرپشن الزامات کی تحقیقات کے لیے مختلف ریاستی ایجنسیوں پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنا دی گئی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بلیک لسٹ میں رکھتا ہوں، اور پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف جنرل میسروی اور جنرل گریسی کو وائٹ لسٹ میں رکھتا ہوں، ایوب خان نے بطور جونیئر آرمی آفیسر اپنے آرمی چیف سے پلاٹ مانگا تھا لیکن انکار ہو گیا۔ بعد میں اس آرمی چیف کو ہٹا دیا گیا اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ شروع ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور ایک جج کے نہیں بلکہ قانون، سیاست اور تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے جسٹس منیر، جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کو بلیک لسٹ میں شامل کرتے ہیں۔ وائٹ لسٹ میں ان کے مطابق جسٹس کانسٹنٹین، جسٹس اچل اور جسٹس محمد بخش کو شامل ہونا چاہیے۔ اپنے ساتھی ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ نے پریشر میں آ کر ملک بیچ دیا تو تاریخ ہمیں ہمیشہ ان کو برے لفظوں سے یاد کرے گی۔