چار مرغیوں کے لئے ایک مرغا!
تحریر: عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ
ایک ستم ظریف نے ایک ’’ماہر اقبالیات‘‘ کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ موصوف علامہ اقبال کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علامہ اقبال ان کے بارے میں جانتے ہیں۔لیکن میں چونکہ ماہر اقبالیات نہیں بلکہ مرشد اقبال کا ایک ادنیٰ سا عقیدت مند ہوں چنانچہ میں علامہ کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ انہوں نے ایک پژمردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دی جس کےنتیجے میں نہ صرف یہ کہ برصغیر کے مسلمان انگڑائی لے کر بیدار ہوئے بلکہ دنیا کے بہت سےممالک کے مقہور و مجبور مسلمانوں نے اپنے کاندھوں سے غلامی کا جوا اتار پھینکا۔مجھے علامہ اقبال کے کلا م میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ان کا عظمت آدم کا فلسفہ ہے وہ انسان کی عظمت کے سب سے بڑے مبلغ ہیں مگر اس انسان کی عظمت کے جس کا وجود عشق سے مالا مال ہو اور جس کا پیکر خودی میں ڈھلا ہوا ہو، اقبال کا آئیڈل انسان ان کا مرد مومن ہے اور مرد مومن اعلیٰ صفات کا حامل وہ انسان ہے جو کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا وزن حق کے پلڑے میں جائے گا یا باطل کے پلڑے میں۔ وہ حق کیلئے لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے بعد وہ کیلکولیٹر ہاتھ میں پکڑ کر نہیں بیٹھ جاتا کہ اس میں اس کی ذات کو فائدہ کیا ہوگا اور اسے نقصان کیا پہنچے گا۔ یہ کام اہل خرد کرتے ہیں، عشق والے یہ کام نہیں کیا کرتے وہ تو آتش نمرود میں بھی بے خطر کود پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں یہی آتش نمرود گلزار میںتبدیل ہو جاتی ہے۔
تقریب رونمائی سے ایک قدم آگے!
ان دنوں ہمارے ارد گرد بھی آتش نمرود کا الاؤ دہک رہا ہے جس میں سے جھوٹ کی چنگاریاں اڑ اڑ کر دامنوں کو جھلسا رہی ہیں۔ اس آتش نمرود میں قوم کی امنگیں، اس کی آرزوئیں اور اس کے خواب جل رہے ہیں، مہنگائی کی لکڑی سے جلائی ہوئی اس آگ سے غریبوں میں جینے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور وہ زندگی پر موت کوترجیح دینے لگے ہیں ،اس آگ کے بھڑکتے ہوئےشعلے گھر کے بام و در کیلئے خطرہ بن گئے ہیں لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس آگ کوبجھانے کی بجائے نومبر کی خنک شاموں میں اس کے گرد بیٹھ کر اپنے ہاتھ تاپتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ توانائی کی بچت ہو رہی ہے۔ کچھ کیلکو لیٹر نما لوگ اس آگ سے اپناسگریٹ سلگاتے ہیں اور اپنی ایک دیاسلائی کی بچت کے پیش نظر وہ اسے اپنی معیشت کیلئے بہتر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ اہل خرد ہیں جن سے اقبال کی جنگ ہے اور ان اہل خرد میں علماء، فضلاء، دانشور، شاعر، ادیب ، صحافی، منصف وردی والے اور بغیر وردی والے سبھی شامل ہیں حالانکہ آگ کی تباہ کاریوں کا دائرہ جب وسیع ہوتا ہےتو سب سے پہلے اس کی زد میں وہی لوگ آیا کرتے ہیں جو ہاتھ تاپ رہے ہوتے ہیں یا سگریٹ سلگا رہے ہوتے ہیں۔
ابھی میں نے صورتحال کا جو نقشہ پیش کیا ہے یہ صرف عالم اسلام کا نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کا ہے۔ سرمایہ داری کی آتش نمرود میں اس وقت پوری دنیا جل رہی ہے جس کے نتیجے میں غریب، غریب تر اور امیر، امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے مبلغ ملکوں میں بھی صورتحال یہی ہے امریکن سنٹر میں ایک امریکی دانشور نے اپنےخطاب میں اس امر کا اقرار کیا کہ امریکہ میں پانچ فیصد امریکیوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی 95فیصد امریکیوں کے پاس ہے لیکن اس کے باوجود یہ قوم سپر پاور ہے محض اسلئے کہ یہ ایک سسٹم کے تحت کام کرتی ہے اور سسٹم میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تواس کا علاج بھی اس سسٹم کے اندر موجود ہوتا ہے مگر ہم لوگ آج تک اپنے ہاں کوئی ایک نظام نافذ نہ کرسکے ہمارے ہاں سب سے موثر دینی جماعتیں ہیں جو نظام میں تبدیلی لا سکتی ہیں چنانچہ گزشتہ 77 برسوں میں انہوں نے حکومتوں سے اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرا لیا ہے۔ ایک شخص انتقال کےبعد جب دوسری دنیا میں پہنچا اور حساب کتاب کے بعد جب فرشتوں نے گرز سے اسے پھینٹی لگانا شروع کی تو وہ بڑے صبر سے مار کھاتا رہا جب فرشتے نے اپنے ہاتھ روکے تو وہ گنہ گار شخص اپنے کپڑے جھارتا ہوا اٹھا اور فرشتے کو مخاطب کرکے بولا ’’تم لوگوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے کوئی شخص ادھر آنے کا ارادہ نہیں کرتا‘‘عام پاکستانی بھی اسی لئے دینی جماعتوں کا رخ نہیں کرتا کہ ان کے پاس عذاب قبر، مرنے کے بعد کیا ہوگا اور حسن پرستوں کا انجام بتانےکیلئے تو بہت کچھ ہے مگر اس دنیا میں اسے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی انہیں فکر نہیں ہے وہ ان مصائب اور اسکے حل کا ذکر تو کرتے ہیں مگر ان کی ترجیحات میں وہی چیزیں شامل ہیں جنہیں وہ ہر حکومت سے منوا کر رہتے ہیں اگر عوام کی اخلاقی اصلاح کے علاوہ سسٹم کی اصلاح بھی انکے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوتے۔
بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگ اقبال کے مرد مومن کے منتظر ہیں یہ مرد مومن بت کدے میں اذان دیتا ہے، یہ مومن رستے کی دشواریوں کا مقابلہ اپنے عشق سے کرتا ہے، یہ مومن تیغ والوں سے بے تیغ بھی لڑتا ہے۔ اقبال کا یہ مرد مومن باطل سے لڑائی کے دوران اپنے گھر میں نہیں بیٹھ جاتا وہ اپنی جان بچانے کیلئے بہانے تلاش نہیں کرتا، وہ جانتا ہے جماعت کی آستینوں میں بت ہیں مگر جب اسے حکم اذاں ہوتا ہے وہ لاالہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر میدان میں اتر جاتا ہے اور پھر بالآخر فتح اس کی ہوتی ۔ آج عالم اسلام کو اس مرد مومن کی ضرورت ہے۔ مرغبانی کے ایک ماہر نے ایک گاؤں میں جا کر لوگوں کو مرغبانی کے بارے میں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ چار مرغیوں کے ساتھ ایک مرغا رکھیں یہ کافی ہوتا ہے۔ کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ اس گاؤں کے دورے پر آیا تو اس نے دیکھا کہ ہر کسان نے چار چار مرغیوں کے ساتھ چار چار مرغے رکھے ہوئے ہیں اس نے کہا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ چار مرغیوں کے ساتھ ایک مرغا رکھنا ہے مگر تم نے چار چار مرغے رکھے ہوئے ہیں اس پر ایک کسان نے جواب دیا جناب ایک مرغا تو آپ کی ہدایت کے مطابق ہے باقی تین مرغے مانیٹرنگ کے لئے ساتھ رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی صورتحال یہی ہے ایک ایک محکمے میں سینکڑوں مرغے رکھے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ مرغا تو ایک ہی ہے باقی مانیٹرنگ ٹیم ہے۔