ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں بائبل پڑھنے پر مجبور

سینیئر صحافی انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ کی ایک جیل میں دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کاٹنے والی پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو قران کی بجائے بائبل پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قرآن کی بجائے بائبل پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انکے مطابق حال ہی میں جب ڈاکٹر عافیہ سے اُنکی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکا کی جیل میں ملنے گئیں تو عافیہ کے ہاتھ میں بائبل تھی، وہ بہت خوفزدہ تھیں اور پاکستان سے ملاقات کیلئے آئی اپنی بہن سے کہنے لگیں کہ بات کرنے سے پہلے بائبل سنیں۔ انصار عباسی کے مطابق چند روز قبل ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مجھ سے رابطہ کیا اور امریکا میں قید اپنی بہن کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کے بارے میں بتایا۔ میں نے ڈاکٹر فوزیہ سے درخواست کی کہ جو اُنہوں نے دیکھا اُس بارے میں اگر مجھے لکھ کر بھیج دیں تو میں اُسے اپنے کالم کے ذریعے پاکستان کے ارباب اختیار تک پہنچانے کی کوشش کروں گا تاکہ امریکا میں قید پاکستان کی بیٹی پر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اُس کو روکنے کیلئے حکومت ممکنہ اقدامات کرے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے گلوبل عافیہ موومنٹ سے منسلک ایک شخص کے ذریعے مجھے عافیہ صدیقی کے ساتھ ملاقات کی روداد بھیجی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

"ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ سے امریکی جیل میں ملاقات کرنے کیلئے 22 مئی کو کراچی سے امریکہ روانہ ہوئی تھیں۔ انکی اپنی بہن سے 31 مئی اور یکم جون کو اس طرح ملاقات کرائی گئی کہ حسب سابق درمیان میں شیشے کی موٹی دیوار حائل تھی۔ 10جون کو ڈاکٹر فوزیہ کی وطن واپسی ہوئی۔اُنہوں نے بتایا کہ عافیہ سے اُن کی ملاقات انتہائی اذیت ناک تھی۔ اس مرتبہ بھی شیشے کی موٹی دیوار حائل ہونے کے باعث وہ اپنی چھوٹی بہن کے سر پر دست شفقت تک نہ رکھ سکیں اور اسے گلے لگانے کی خواہش بھی دل میں ہی رہ گئی۔
ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق پہلے روز دو گھنٹے انتظار کے بعد ملاقات کرائی گئی۔ جب ملاقات کا وقت ختم ہونے کے بعد امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے جیل حکام کو اگلے روز صبح پہلے سے طے شدہ ملاقات کے بارے میں بتایا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا جس پر وکیل نے حکام کو جیل کی ای میل کاپی فراہم کی۔ دوسرے روز ملاقات کے بعد جیل حکام عافیہ کو واپس اس کے سیل میں لے گئے، مگر ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق انہیں شیشے کے دوسری طرف کمرے میں ایک گھنٹے سے زائد وقت تک بند رکھا ۔ اس دوران، ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ میں دروازہ پیٹتی اور چلاتی رہی کیونکہ جیل حکام نے میرا موبائل فون پہلے ہی جمع کرلیا تھا۔ ایک گھنٹہ سے زائد وقت گزرنے کے بعد جب میں جیل سے باہر نہ آئی تو وکیل کلائیو اسمتھ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے جیل حکام سے رابطہ کیا جس کے بعد کمرہ کھول کر مجھے باہر نکالا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ اس مرتبہ ملاقات سے قبل شیشے کو اچھی طرح سے صاف کیا گیا تھا لہازا میں عافیہ کو اچھی طرح سے دیکھ سکی۔ اس کی صحت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔

ڈاکٹر فوزیہ نے الزام لگایا کہ عافیہ کو جیل میں الیکٹرک شاکس لگا کر سزا دی جا رہی ہے۔ اسکے علاوہ جب عافیہ کو ملاقات کے کمرے میں لایا گیا تو اس کے پاس بائبل تھی۔ وہ بہت خوفزدہ تھی۔ اس نے کہا پہلے آپ بائبل سنیں پھر میں بات کروں گی۔ ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق انہیں اس کا مطلب یہی سمجھ میں آیا کہ اسے جیل میں بائبل پڑھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ فوزیہ نے کہا عافیہ اسلام کی پیروکار ہیں اس لیے انہیں زبردستی بائبل پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عمل کھلم کھلا مذہبی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی ارباب اختیار فوری طور اس کا نوٹس لیں اور ڈاکٹر عافیہ کو تحفظ فراہم کریں۔

Back to top button