کراچی آبدوز سکینڈل میں سابق فرانسیسی وزیراعظم بری


فرانس کی ایک عدالت نے سابق فرانسیسی وزیرِ اعظم ایڈوارڈ بالادور کو کراچی آبدوز کیس میں کمیشن کے ذریعے پیسہ بنانے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ مسٹر بالادور پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور فرانس کے درمیان آگسٹا 90 بی کلاس آبدوزوں کے ایک معاہدے کے ذریعے رشوت حاصل کی تھی۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے یہ رقم 1995 میں اپنی الیکشن مہم پر خرچ کی تھی تاہم وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ اس کیس میں ان کے 78 سالہ سابق وزیرِ دفاع فرانسوا لیوٹارڈ کو اثاثوں کے بے جا استعمال میں ملوث ہونے پر دو سال کی معطل قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ مشہور زمانہ آگسٹا آبدوز سکینڈل میں پاک نیوی کے سابق سربراہ ایڈمرل منصور الحق تو نیب کے ساتھ پلی بارگین کرکے صاف بچ نکلے اور امریکہ میں سیٹل ہو گے لیکن اس کے برعکس فرانس نے 15 جون 2020 کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تقریبا تین دھائیاں گزر جانے کے بعد کیس میں ملوث میں چھ افراد کو 18 لاکھ پاؤنڈ رشوت لینے کے جرم میں دو سے پانچ برس قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 4 مارچ 2021 کو اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے سابق وزیراعظم بالادور کو تو عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کردیا لیکن ان کے وزیر دفاع کو دو سال قید کی سز اسنائی ہے۔
خیال رہے کہ کئی عشروں تک چلنے والی طویل تحقیقات کے بعد پہلی بار 15 جون 2020 کو چھ افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں جبکہ اکیانوے برس کے ضعیف العمر سابق فرانسیسی وزیرِ اعظم ایڈوارڈ بالادور اور ان کے وزیرِ دفاع فرانسوا لیوٹارڈ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اگلے نو مہینوں تک دونوں نے پیرس میں لا کورٹ آف دی ریپبلک میں ٹرائل کا سامنا کیا اور بالآخر 4 مارچ 2021 کو بالادور باعزت بری ہوگئے جبکہ لیوٹارڈ کو دوسال کی معطل قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق اس حساس مقدمے کی کارروائی سے میڈیا کو بڑی حد تک دور رکھا گیا تھا اور فیصلہ آنے پر ہی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ اس کیس کی تحقیقات میں تین سابق فرانسیسی حکومتی عہدیداروں اور تین دیگر افراد کو کراچی افیئر یا کراچی گیٹ میں ملوث پایا گیا اور ثابت ہوا کہ اس معاہدے میں خفیہ طور پر رشوت لی گئی تھی جس کی مدد سے پیسے فرانس لائے گئے تھے۔اس میں سے کچھ پیسے مبینہ طور پر سابق فرانسیسی وزیرِ اعظم ایڈوارڈ بالادور کی ناکام صدارتی مہم کے لیے بھی استعمال کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آٹھ مئی 2002 کو ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری کار کو فرانسیسی انجنیئرز کی منی بس سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہوئے جن میں 11 فرانسیسی انجنیئر بھی شامل تھے جو فرانس کی نیوی کی کنسٹرکشن کمپنی ڈی سی این کے ملازم تھے۔ یہ انجنیئر پاکستان میں آگسٹا آبدوز کی تیاری کے لیے یہاں موجود تھے، یہ آبدوزیں فرانس نے پاکستان کو فروخت کی تھیں، حملے کے اس واقعے کی تحقیقات کے دوران پاکستان اور فرانس کی اہم شخصیات میں کمیشن کا سکینڈل سامنے آیا، جس کو کراچی افیئر کا نام دیا گیا۔ واضح رہے کہ آگسٹا آبدوز پاکستان بحریہ کی بیک بون سمجھی جاتی ہے، 1994 میں تین آگسٹا آبدوزوں کا آرڈر دیا گیا تھا ان میں سے ایک کی فرانس میں تیاری کی گئی تھی جبکہ باقی دو کی تیاری پاکستان میں عمل میں لائی گئی۔ فرانسیسی نیول کمپنی ڈی سی این نے پاکستان کو اس کی کمرشل فروخت کی بھی اجازی دی تھی۔ یہ آبدوز 350 میٹر تک سمندر کی گہرائی میں جا سکتی ہے۔
پاکستان نیوی کی سابق ڈی جی انٹیلی جنس کموڈور شاہد اشرف نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سنہ 1992 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں نیوی نے 52 کروڑ ڈالرز کی مالیت کی آبدوزوں کی خریداری کی منظوری دی۔ ایڈمرل نقوی، ایڈمرل جاوید افتخار اور ایڈمرل مجتبیٰ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے چین، فرانس، سوئیڈن اور برطانیہ کا دورہ کیا اور سفارش کی کہ آبدوز سوئیڈن سے خریدی جائے۔اس کے بعد ایڈمرل سعید خان نے دوبارہ ایک ٹیم تشکیل دی جس نے ان چاروں ملکوں کا دورہ کیا اور سفارش کی کہ برطانیہ یا پھر فرانس سے آگسٹا 90 آبدوز کی خریداری کی جائے۔21 اگست 1994 کو آگسٹا کی خریداری کا معاہدہ ہوا تو اس وقت بینظیر بھٹو اقتدار میں تھیں۔ اس سکینڈل کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی حکومت میں ایڈمرل منصور الحق کو فارغ کر دیا گیا اور وہ امریکہ منتقل ہو گئے، بدعنوانی کے الزام میں انھیں امریکہ کے شہر آسٹن میں حراست میں لیا گیا اور بعد میں ان کی اپنی درخواست پر پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
ایڈمرل منصور الحق کچھ عرصہ نیب کی تحویل میں رہے اور انھوں نے قومی احتساب بیورو سے پلی بارگین کر کے پچیس فیصد رقم ادا کی اور بری ہو گئے۔ نیب کے فیصلے کے دستاویز کے مطابق بطور نیول چیف انھوں نے مختلف دفاعی سودوں میں رشوت اور کمیشن حاصل کیں اور 29 اپریل 1997 میں انھیں قبل از وقت ریٹائر کیا گیا جس کے بعد وہ آسٹن، امریکہ منتقل ہو گئے اور 2018 میں امریکہ میں ہی انتقال کر گئے۔ نیول انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ریئر ایڈمرل تنویر احمد کا کہنا ہے کہ اس میں اور بھی لوگ ملوث ہیں جن کو سامنے نہیں لایا گیا۔جس جس نے اس معاہدے میں حصہ لیا ہوتا ہے وہ تو اپنا حصہ لیتا ہے اس میں یہ کہنا کہ صرف منصور الحق نے کیا یہ زیادتی ہو گی منصور نے تو تسلیم کیا ہے لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ نیب اور دیگر اداروں نے دوسرے لوگوں کوایکسپوز کیوں نہیں کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button