کراچی واقعے میں معطل ہونے والے ISI اور رینجرز افسران کے نام سامنے آ گئے


کراچی میں 18 اور 19 اکتوبر کی رات مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کے واقعے کے ذمہ دار جن دو دو فوجی افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر معطل کیا گیا ہے وہ دونوں بریگیڈیئر رینک کے آفیسرز ہیں اور ان کا تعلق آئی ایس آئی اور رینجر سے ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس واقعے کی بنیادی ذمہ داری آئی ایس آئی آئی سندھ کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر حبیب اور رینجرز کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر افضل پر عائد کی گئی ہے جنہوں نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا سارا منصوبہ ترتیب دیا اور اس پر عمل درآمد کے لیے آئی جی سندھ کو بھی یرغمالی بنایا۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دنوں افسران نے ذاتی حیثیت میں جذباتی فیصلہ کیا جس سے اداروں کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معطل ہونے والے فوجی افسران میں دوعدد کرنل حضرات بھی شامل ہیں. جن میں رینجرز کے کرنل شبیر آئی ایس آئی کے کرنل علی گوہر کا نام لیا جا رہا ہے.ان دونوں حضرات نے اپنے سینئیرز کے حکم پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کیا اور آئی جی سندھ کو یرغمال بنایا.پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹرسروسز انٹیلی جنس کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔ تاہم آئی ایس پی آر نے معطل ہونے والے افسروں کا نام نہیں بتایا جن کے بارے میں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ دونوں بریگیڈیئر رینک کے آفیسرز ہیں۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں افسران نے کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے اور آئی جی سندھ کو یرغمال بنانے کا منصوبہ کس کے کہنے پر ترتیب دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی اور رینجرز دونوں فوج کے ادارے ہیں اور چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتے ہیں لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کہ نچلے لیول کے افسران اوپر سے حکم آئے بغیر اس طرح کی کوئی کاروائی کریں۔ دوسری طرف عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں افسران کو اسی لئے ان کے عہدوں سے ہٹا کر معطل کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے سینئر افسران سے منظوری حاصل کیے بغیر آدھی رات کو واردات ڈال دی جس سے فوج کے ادارے کی ساکھ پر سوالات کھڑے ہو گئے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جس وقت کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا اس وقت ایک افسر ذہنی طور پر درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لہذا ان سے غلط فیصلہ ہوگیا جس کا خمیازہ پورے ادارے کو بھگتنا پڑا۔
خیال رہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس واقعے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔ اب جنرل باجوہ کی ہدایت پر کراچی واقعہ کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس کے مطابق واقعہ کے ذمہ داروں کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ائی ایس پی آر کے مطابق گذشتہ ماہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کراچی میں جلسے کے موقع پر مزار قائد کی مبینہ بے حرمتی کے پس منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل سندھ کے تحفظات کے حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل کرلی گئی ہے جبکہ متعلقہ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے آفیسرز مزار قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے اور ان پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کے لیے عوام کا شدید دباؤ تھا۔‘
اعلامیے کے مطابق: ’ان آفیسرز نے شدید عوامی ردعمل اور تیزی سے بدلتی ہوئی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو اپنی دانست میں ناکافی اور سست روی کا شکار پایا۔ ‘’اس کشیدہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے ان آفیسرز نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا: ’ذمہ دار اور تجربہ کار آفیسرز کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورت حال سے گریز کرنا چاہیے تھا، جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔‘ آئی ایس پی آر کے مطابق کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ آفیسرز کو اپنی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور ضابطے کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں عمل میں لائی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ان افسران نے ذاتی حیثیت میں جذباتی ردعمل کا اظہار کیا، افسران کو تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مزید انکوائری متعلقہ ڈیپارٹمنٹس میں کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی آئی تھی جس نے مزار قائد پر حاضری دی تھی، اس دوران کیپٹن (ر) صفدر اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے تھے۔
بعد ازاں شام ہونے والے جلسے کے چند گھنٹوں بعد کراچی کے ایک ہوٹل سے مسلم لیگ (ن ) کے رہنما کیپٹن(ر) صفدر کو مزار قائد کے تقدس کی پامالی سے متعلق مقدمے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ کیپٹن (ر) صفدر کو عدالت سے ضمانت مل گئی تھی تاہم معاملہ اس وقت ایک نئی صورتحال اختیار کر گیا تھا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آواز میں ایک آڈیو سوشل میڈیا پر صحافی کی جانب سے شیئر کی گئی تھی۔مذکورہ آڈیو میں محمد زبیر یہ الزام لگا رہے تھے کہ ’مراد علی شاہ نے انہیں تصدیق کی تھی کہ پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ گرفتاری کے لیے بھیجیں‘۔آڈیو میں کہا گیا تھا کہ ’جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے اغوا کیا ہے اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا‘۔
وزیر اعلیٰ کی جانب سے کمیٹی کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل سمیت اعلیٰ پولیس افسران نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں بے جا مداخلت پر چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی۔اس درخواست کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پریس کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا’۔ساتھ ہی انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے کا نوٹس لیا تھا۔اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی سندھ سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس نے ایک بیان جاری کیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نوٹس لینے کے بعد چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button