کوہستان میں چینی انجینئرز کو کس نے نشانہ بنایا؟


خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب برسین کے مقام پر صبح سات بجے ایک دہشت گرد بم حملے میں 9 چینی انجینئرزاورتین فرنٹیئر کور اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ تاہم ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ بم سڑک پر نصب تھا، بس کے اندر لگا تھا یا باہر سے پھینکا گیا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس دہشت گرد حملے کا نشانہ بس میں سفر کرنے والے 30 چائنیز انجینئر تھے جنکے ساتھ پاکستانی حفاظتی دستہ بھی موجود تھا۔ بتایا گیا یے کہ چینی انجینئرز داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے منسلک تھے اور بس کی منزل داسو ڈیم تھی۔ واضح رہے کہ برسین کا علاقہ جہاں پر حملہ ہوا، اپر کوہستان کے ہیڈکوارٹر سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
حادثے کے وقت موقع پر موجود عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صبح سات بجے پیش آیا جب معمول کے مطابق داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس وہاں سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی جس کے بعد بس ہوا میں اچھل کر دریا کے کنارے جاگری۔ عینی شاہد کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد انہیں ایسے لگا کہ جیسے بس ہوا میں اڑتی ہوئی نیچے کی طرف جارہی ہے جس کے بعد وہ دوڑتے ہوئے بس کی جانب دوڑے جو لڑھکتے ہوئی دریا کے کنارے پہنچ چکی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ بم کے دھماکے سے بس کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی بس چائنا گازوبہ کمپنی کی ملکیت بتائی جا رہی ہے۔
واقعے کے فوراً بعد اپر کوہستان کے ڈپٹی کمشنر عارف خان یوسفزئی نے بتایا کہ یہ واقعہ صبح ساڑھے 7 بجے کے قریب تب پیش آیا جب بس برسین کیمپ سے 30 ورکرز کو لے کر پلانٹ کے مقام پر جارہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت غیر ملکی انجینئرز، فرنٹیئر کور کے اہلکاروں سمیت مقامی مزدور بس میں سوار تھے۔ ادھر واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے ایک بیان میں واقعے کو ایک ’حادثہ‘ قرار دیا ہے۔ واپڈا کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ایک چینی کمپنی کے ملازمین بس میں سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی جگہ پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اور رینجرز نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
کوہستان کے حکام نے بتایا ہے کہ زخمیوں کو داسو رورل ہیلتھ سینٹر منتقل کیا گیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ واقعہ کس وجہ سے پیش آیا، علاقے میں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کررہے ہیں جس وجہ سے معلومات حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ ’اس وقت ہمیں واضح نہیں کہ یہ دھماکا ہے یا کوئی حادثہ تاہم یہ کسی دھماکے کی طرح لگتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش مکمل ہونے کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی۔
اس معاملے پر ابتدائی اطلاعات تو متضاد نظر آئیں تاہم وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسے ایک ‘بزدلانہ حملہ’ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ’پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان خصوصی اقدامات سے توجہ نہیں ہٹ سکتی‘۔
بابر اعوان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملک کی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دینے اور ایوان کو اس واقعے سے متعلق اعتماد میں لینے کے لیے کہیں گے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ زمینی حقائق سے عوام اور میڈیا کو آگاہ کریں گے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا سے درخواست ہے کہ قیاس آرائیوں سے گریز کریں، چینی اہلکاروں کی سیکیورٹی پر مامور بڑی تعداد میں سیکیورٹی عملہ موجود تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’شدید زخمیوں کو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے‘۔
ادھر چین کے اسلام آباد میں سفارتخانے نے ایک سرکاری بیان میں تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں میں نو چائنیز انجینئر جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ تین پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے بھی پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ’چینی شہریوں، تنظیموں اور منصوبوں کی حفاظت‘ کے لیے ’مجرمان کو‘ سخت سے سخت سزا دیں۔
دوسری طرف ابتدائی تحقیقات کے بعد انٹیلی جنس حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس حملے میں بھارتی حمایت یافتہ کوئی بلوچ دہشت گرد تنظیم شامل ہو سکتی ہے جس نے اس سے پہلے کراچی میں تین مرتبہ چائنیز ایمبیسی اور سفارتکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔

Back to top button