کیا بلاول پنجاب میں ‘تیر’ سے ‘شیر’ کا شکار کر پائیں گے؟
ملک میں آئندہ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ الیکشن سے پہلےتحریک انصاف کے عملا سیاست سے آؤٹ ہونے کے بعد ماضی قریب کی دو بڑی اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ سے انتخابی مہم کا آغاز کرنے کے بعد اب پنجاب میں ‘شیر’ کا شکار کرنے کا اعلان کر دیاہے اور ساتھ ہی اپنی انتخابی مہم میں اپنی توپوں کا رخ لیگی قیادت کی طرف موڑ دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نہ صرف اپنے انتخابی جلسوں میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) کو ہی انتخابات میں اپنے مقابل کی جماعت قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو نے ایسے موقع پر پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جب پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں گنجائش موجود ہے۔
سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں بلاول بھٹو پنجاب میں مسلم لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، چونکہ پاکستان تحریک انصاف عملاً بلے کے نشان پر انتخابات میں نہیں لے رہی اس لیے بلاول کے پاس یہ گنجائش موجود ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان یا سپورٹرز کی توجہ حاصل کی جائے۔ عاصمہ شیرازی نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ وہ سندھ سے نشستیں حاصل کر لے گی لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسے سخت محنت کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ بلاول پنجاب سے کیا حاصل کر پائیں گے، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن انہیں اوپن فیلڈ ضرور ملی ہے جس پر وہ اپنا وقت لگا پائیں گے اور یہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق تحریک انصاف کے پاس بلے کا نشان نہ ہونے سے مشکلات بڑھیں گی، جہاں تک آزاد امیدواروں کا سوال ہے تو وہ مسلم لیگ نون کے لیے مشکل کھڑی کرسکتے ہیں لیکن وہ تمام کا تمام پی ٹی آئی کا ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گے ان کا ووٹ ٹوٹے گا، کچھ ووٹ پیپلز پارٹی یا تحریکِ لبیک کو بھی پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو نے پنجاب کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ اگر بلاول آج پارٹی کو پنجاب میں مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں جلسے جلوسوں سے انتخابات میں فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن انہیں اندازہ ہوگا کہ کتنا ووٹر ان کے پاس سے جا چکا ہے یا کتنا ووٹر واپس آیا ہے۔ مظہر عباس کے مطابق پی ٹی آئی پنجاب میں کمزور نظر آ رہی ہے جبکہ شہباز شریف کی حکومت میں جو ہوا اس سے لوگ خوش نہیں ہیں، ایسے میں اگر پنجاب میں مقابلے کی فضا ہے تو یہ انتخابی نتائج کے لیے اہم ہو گا۔
تجزیہ کار مظہر عباس کا مزید کہنا ہے کہ قبولیت کے چکر میں ہم مقبولیت کو نظر انداز کردیتے ہیں، کسی جماعت کی سیاست اسے الیکشن سے باہر کر کے ختم نہیں کی جاسکتی۔ماضی ہم بھی پیپلز پارٹی کو مائنس کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا لیکن پارٹی کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی۔مظہر عباس کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی بہت مطمئن ہے اور اسے کوئی چیلنج نظر نہیں آرہا لیکن پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں وہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ان کے بقول، پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی نظر آرہی ہے کہ وہ اتنی نشستیں حاصل کرنے کی خواہش مند ہے کہ مرکز میں حکومت سازی کے لیے بارگیننگ پوزیشن میں آجائے۔ اسی لیے بلوچستان میں اس نے ریکارڈ امیدوار کھڑے کیے ہیں۔مظہر عباس کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اتنی پھنس کر رہ گئی ہے کہ اسے دیگر صوبوں میں کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ "مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے وکٹ کو بہت مس جج کر گئے ہیں اور انہیں اندازہ ہی نہیں کہ گراؤنڈ پر صورتِ حال کتنی بدل چکی ہے۔
واضح رہے کہ آٹھ فروری کو شیڈول عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو لاہور کے حلقہ این اے 127 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ وہ پنجاب سے کئی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔دوسری جانب تجزیہ کار سید طلعت حسین کے مطابق جو جماعت خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلوانا پسند کرتی ہے اس کی قیادت کو اپنے مضبوط حلقے یعنی سندھ تک ہی خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے۔طلعت حسین کے مطابق پنجاب سے پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ ختم ہونے کی وجہ وہاں تنظیم کا موجود نہ ہونا تھا جب کہ پارٹی قیادت کا سندھ میں تنظیمی معاملات پر زیادہ فوکس رہا اور بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد تو پیپلز پارٹی نے خود کو پنجاب سے عملاً رول بیک ہی کر لیا تھا جس کی وجہ سے جو خلا بنا اسے تحریک انصاف نے بھر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں 2002 سے اب تک تنزلی کا شکار رہی ہے اور ایسا اس وقت ہوا جب نوجوان ووٹر پی ٹی آئی کی طرف مائل ہو رہا تھا اور اس طرح پیپلز پارٹی نے نئے ووٹر کا میدان کھو دیا۔ تاہم اب اچھی بات ہے کہ بلاول بھٹو دوبارہ نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔