کیا شہباز امریکی سفیر کوقیدی نمبر 804سے ملاقات کی اجازت دینگے؟

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ أمور نے امریکی سفیر کو اڈیالہ جیل میں جا کر سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے کی تجویز دی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آیا ایسا ممکن ہے؟ کیا پاکستانی حکومت اپنے ملک میں تعینات امریکی سفیر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کرنے کی اجازت دے گی اور کیا اس حوالے سے امریکی حکومت کا سفارتی دباؤ کارگر ہوسکتا ہے،گوکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کوئی حتمی جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے محتاط لفظوں میں کہا ہے کہ امریکی سفیر کی جیل میں جاکر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔
یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کی سماعت میں امریکی سینئر رکن کانگریس بریڈشرمین نے ڈونلڈ لو کو یہ تجویز دی تھی کہ امریکی سفیر کو عمران خان سے جیل میں جاکر ملاقات کرنی چاہیے جو اپنی کہانی سنانے کیلئے منتظر ہوں گے۔
اس معاملے پر پاکستان میں بھی میڈیا اورسوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غیر ملکی سفارت کار پاکستان کے قیدی سیاست دان سے ملاقات کر سکتا ہے؟ یا پہلے کوئی ایسی مثال موجود ہے؟
مبصرین کے مطابق عام طور پر اگر کوئی دوہری شہریت رکھنے والا پاکستانی کسی جرم میں جیل کا قیدی ہو تو اس ملک کا سفارتکار وزارت داخلہ سے اجازت ملنے کے بعد جرم کی نوعیت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کیلئے درخواست کی منظوری پر جیل میں متعلقہ ملزم سے ملاقات کر سکتا ہےلیکن چونکہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس صرف پاکستانی شہریت ہے، اس لئے ان پر پالیسی کے اس طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوتا، پھر ان کی جانب سے ازخود بھی امریکی سفیر سے ملاقات کی اعلانیہ کوئی درخواست بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم دوسری جانب کسی ملک کے سفیر کی پاکستانی سیاستدان سے جیل میں جاکر اس سے ملاقات کرنے، جائزہ لینے اور موقف جاننے کی مثال شاید ہی ہو جو تلاش کے باوجود ریکارڈ میں دستیاب نہیں۔
دوسری طرف امریکی سفیر کی قیدی نمبر 804سے ملاقات کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں اثر ورسوخ کافی زیادہ ہے۔ اس لیے وہ اگر چاہیں تو ملاقات تو ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے انہیں وزارت داخلہ سے باقاعدہ اجازت لینا ہوگی۔ کیونکہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک چاہے وہ جتنا بھی طاقتور ہو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔‘
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے کئی بڑے سیاسی رہنما جیلوں میں بند رہے مگر ابھی تک کسی سے غیر ملکی حکام کی کوئی ملاقات ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔ البتہ متعلقہ مقامی پارٹی رہنماؤں کے ذریعے پیغام رسانی ضرور ہوسکتی ہے ۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون غیر ملکی حکام کی پاکستانی قیدی سے ملاقات کی اجازت دیتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر ممالک کے درمیان ہونے والے عالمی قوانین کے تحت معاہدے ہی قانون ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر ملک ان معاہدوں کے مطابق کوئی بھی کام کرتا ہے اور تعلقات کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہمارے قانون میں یہ موجود ہے کہ کوئی بھی قیدی حکومت کی اجازت سے جس سے چاہے مل سکتا ہے۔جہاں تک بات ہے امریکی رکن کانگریس کے عمران خان سے ملاقات کی تجویز کی تو وہ ممکن بھی ہے اور نہیں بھی۔ اگر امریکی یا کسی بھی ملک کا سفارت کار یا کوئی بھی شہری عمران خان یا کسی بھی قیدی سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔‘
امجد شاہ کے بقول، ’امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں حد سے زیادہ اثر ورسوخ ہے اگر وہ چاہیں تو حکومت کی اجازت سے ملاقات تو کر سکتے ہیں۔ مگر حکومت سفارتی تعلقات کی بنیاد پر شاید ایسا نہیں چاہے گی اور امریکی حکام کو اس معاملے سے دور رہنے پر قائل کرے گی۔‘
دوسری طرف پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے قانون میں غیر ملکی حکام یا شہری کسی بھی قیدی سے ملاقات کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس وجہ کے ساتھ حکومت سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے۔ اگر حکومت کا محکمہ داخلہ اجازت نہیں دیتا تو عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
فرہاد علی شاہ نے کہا: ’مگر جس طرح تحریک انصاف اور ان کی قیادت ملکی معاملات کو عالمی سطح پر اچھال کر ملکی بدنامی کا باعث بن رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ نہ تو امریکی حکام عمران خان سے ملاقات کرنا چاہیں گے اور نہ ہی پاکستان اجازت دے گا۔‘