کیا نون لیگ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی حکومت بنا سکتی ہے؟
عام انتخابات میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو شادی اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد ملک کی تنیوں بڑی جماعتیں حکومت سازی کے لیے اپنی اپنی جگہ پر غور و فکر میں مصروف ہیں۔ ہر جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسے ایسی حکومت بنانے کا موقع ملے جس میں اسے ایسی جماعت کو شامل نہ کرنا پڑے جو صدر، سپیکر، چیئرمین سینیٹ اور اہم وزارتوں کی خواہش مند ہو۔ایسے میں مسلم لیگ ن اگر پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت بناتی ہے تو کچھ تگ و دو کے بعد وہ اس پوزیشن میں آ سکتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لے۔
نمبر گیم کے مطابق مسلم لیگ ن کے پاس اپنی، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کی نشستیں ملا کر ایک سو نشستیں بن رہی ہیں۔ انھیں 134 کا ہندسہ عبور کرنے کے لیے مزید 34، 35 لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو اعلانیہ طور پر تو یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں سے بات چیت کریں لیکن اندرون خانہ انھیں جو ٹاسک دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جائیں اور اپنی حکومت بنانے کے لیے بندے پورے کریں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شہباز شریف نے جیتنے والے آزاد امیدواروں بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو بالواسطہ پیغامات دینا شروع کر دیے ہیں کیونکہ مطلوبہ آزاد امیدواروں کی نون لیگ میں شمولیت کے بعد تشکیل دی گئی حکومت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آزاد امیدواروں کی شمولیت سے مسلم لیگ ن نمبر گیم کے اعتبار سے بھی ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔اگر ن لیگ تحریک انصاف کی حمایت سے جیتنے والے آزاد امیدواروں کی مطلوبہ تعداد اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں انھیں پنجاب میں حکومت بنانے میں اور بھی آسانی ہو جائے گی کیونکہ ممکن ہے کہ جس حلقے کا ایم این اے ن لیگ میں شامل ہو وہ اپنے ساتھ ایک دو ایم پی اے بھی شامل کر لے۔
اس حکومت کی صورت میں ایم کیو ایم کے پاس موقع ہوگا کہ وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی مخالف سیاست کریں گے تو ان کو کراچی میں پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی اور اپنے لیے مزید جگہ بنانے کا موقع ملے گا۔اس وقت ایم کیو ایم کراچی کے بلدیاتی نظام کا حصہ نہیں ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی اپنی شہری حکومت کے خلاف جا کر ایم کیو ایم کو فائدہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جس کے بعد ایم کیو ایم وفاقی حکومت پر انحصار کیے بغیر نہیں چل سکتی تو ان کے حکومت سے نکلنے کے امکانات بھی کم ہوں گے۔ تاہم دیکھنا ہے کہ نون لیگ اس حکمت عملی میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔ تاہم نون لیگ کے اس حکمت عملی پر عملدرآمد کے بعد 5 نون منتخب آزاد اراکین قومی اسمبلی نون لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخاب میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے اب تک 20کے قریب امیدواروں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے لئے اپنی حمایت ظاہر کر دی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اس حوالے سے جوڑ توڑ جاری ہے اور شامل ہونے والے آذاد ارکان کی تعداد بڑھ سکتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ کامیاب ہونے والے ان آزاد امیدواروں کا تعلق راولپنڈی ڈویثرن، جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے ہے۔۔ ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے متعدد آزاد اراکین سے رابطے کئے ہیں ۔ حکومت بنانے کا وقت آنے پر پر یہ سب لوگ اسمبلی میں اکٹھے ہونگے تاہم اس سے پہلے بھی ان کو سامنے لائے جانے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حلقوں کی طرف سے یہ بھی دعوی کیا ہے ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے والے آزاد اراکین کی تعداد میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نون لیگ نے پیپلز پارٹی سمیت تمام آپشن کھلے رکھے ہیں تاہم اپنی زیادہ تر توجہ آزاد امیدواروں کی حمایت پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔