"مائیگرین ” یا آدھے سرکا درد حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کابڑا سبب
ایسی خواتین جو آدھے سر کے درد کا شکار رہتی ہیں ان میں حمل کے دوران مختلف پیچیدگیوں جیسے قبل از وقت پیدائش، ہائی بلڈ پریشر اور اعضا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔یہ بات امریکا میں برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔جس کے مطابق مائیگرین یا آدھے سر کےدرد کا سامنا کرنے والی خواتین میں دوران حمل بلڈ پریشر، پیشاب میں پروٹین جیسی پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو ماں اور بچے دونوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو پیدا کرنے والی عمر کی 20 فیصد خواتین کو آدھے سر کے درد کا سامنا ہوتا ہے مگر حمل پر اس کے اثرا کو پہلے زیادہ اچھی طرح سمجھا نہیں گیا۔محققین کے مطابق ہماری تحقیق میں مائیگرین اور حمل کی پیچیدگیوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا ہے جس سے ڈاکٹروں اور خواتین کو ممکنہ خطرات کی روک تھام میں مدد مل سکے گی۔اس تحقیق کے لیے 20 سال کے عرصے میں 19 یزار خواتین کے 30 ہزار حمل کے کیسز کو دیکھا گیا۔اس عرصے میں 11 فیصد خواتین میں حمل سے قبل مائیگرین کی تشخیص ہوئی تھی۔بعد ازاں محققین نے ان خواتین میں حمل کے دوران پیچیدگیوں جیسے قبل از وقت پیدائش، دوران حمل زیابیطس، بلڈ پریشر اور کم پیدائشی وزن کی جانچ پڑتال کی۔
عمر، جسمانی وزن اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین نے دریافت کیا کہ مائیگرین کی شکار رہنے والی خواتین میں اس عارضے سے محفوظ رہنے والی خواتین کے مقابلے میں حمل کے دوران پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔جیسے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ 17 فیصد، ہائی بلڈ پریشر کا 28 فیصد، ہائی بلڈ پریشر سے دیگر اعضا کو نقصان کا 40 فیصد بڑھ جتا ہے۔بار بار مائیگرین کا سامنا کرنے والی خواتین میں دوران حمل ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ آدھے سر کے درد کا کم سامنا کرنے والی خواتین کے مقابلے میں 51 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین کے مطابق یہ بھی دریافت کیاگیا ہے کہ مائیگرین دوران حمل ذیابیطس یا کم پیدائشی وزن کا باعث نہیں بنتا۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ پیچیدگیوں کا خطرہ مجموعی طور پر زیادہ نہیں مگر مائیگرین کی تاریخ رکھنے والی خواتین کو ممکنہ خطرات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آخر مائیگرین کی شکار خواتین میں پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ کیوں ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ اس تحقیق کے نتائج امریکن اکیڈمی اف نیورولوجی کے 74 ویں سالانہ اجلاس کے دوران اپریل میں پیش کیے جائیں گے۔