تین بڑوں کیخلاف آئین شکنی پر غداری کیس بننے کا امکان


قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے اور ووٹنگ کرائے بغیر اجلاس ملتوی کرنے اور عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی موجودگی کے باوجود قومی اسمبلی توڑنے کے فیصلے واضح طور پر آئین شکنی کے زمرے میں آتے ہیں جنکی سزا موت ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں آج دن تک صرف جنرل پرویز مشرف پر آئین شکنی کے تحت کیس چلا تھا اور اسے سزائے موت سنائی گئی تھی جس سے بچنے کے لیے سابق فوجی آمر بیرون ملک فرار ہوگیا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کے اسپیکر نے جو حرکت کی ہے اس کے بعد ان دونوں کے خلاف بھی آرٹیکل 6 کے تحت تحت کارروائی کا قوی امکان موجود ہے۔ اگر ایسا ہوا تو عمران خان پہلے سویلین حکمران ہوں گے جن کو آئین شکنی کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس واردات کا نوٹس لے لیا ہے۔
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو آئین اور ضوابط کے منافی قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد اپوزیشن نے ان پر آئین شکنی کا الزام عائد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ قاسم سوری نے یہ کہہ کر وزیراعظم قرارداد مسترد کی کہ ‘عدم اعتماد کی تحریک ایک بین الاقوامی سازش کابحصہ ہے اور آئین اور قومی مختاری و آزادی سے منافی ہے۔ لہذا یہ تحریک رولز اور ضابطے کے خلاف ہے اور میں اسے مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قاسم سوری نے جو رولنگ دی وہ تحریری شکل میں موجود تھی اور وہاں اسے کاغذ سے پڑھ رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ روانی میں اسد قیصر کا نام بھی پڑھ گئے جنہوں نے کہ اجلاس کی صدارت کرنا تھی لیکن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کر دی گئی تھی۔
ڈپٹی سپیکر کی جانب سے آئین شکنی کے فورا بعد عمران خان نے قوم کو ایک ریکارڈ شدہ خطاب میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘صدر کو ایڈوائس جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی اور پھر آگے جو بھی عمل ہے اگلے انتخابات کا یا عبوری حکومت کا وہ اب شروع ہوجائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد درحقیقت بیرونی مداخلت سے حکومت گرانے کی سازش تھی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے بھی تقریر پہلے سے ریکارڈ کروا رکھی تھی اور یہ تمام واردات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈالی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے وزیراعظم کو اس غیر آئینی حرکت سے منع کیا تھا لیکن وہ ایسا کرنے پر مصر تھے۔ وزیراعظم کی اس تقریر کے فوری بعد یہ خبر سامنے آئی کہ ومران خان کی سفارش پر صدر علوی نے قومی اسمبلی توڑ دی ہے اور انہیں بطور نگران وزیر اعظم کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سپیکر قاسم سوری اور وزیر اعظم عمران خان پر ’سنگین غداری‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں پر پاکستان کے آئین کا ’آرٹیکل چھ‘ لگے گا جو غداری کے بارے میں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق 3 اپریل آخری دن تھا جب وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانا لازمی تھی، لیکن عمران خان کی ہدایت پر سپیکر نے آئین شکنی کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد بھی مسترد کردی اور اجلاس بھی ملتوی کردیا۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ لازمی تھا اور ویسے بھی وزیراعظم اپنے خلاف تحریک داخل ہونے کے بعد اسمبلی توڑنے کا آئینی اختیار کھو چکے تھے۔ لہذا ان کی جانب سے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ بھی غیر آئینی ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور قاسم سوری نے آئین شکنی کی ہے جو غداری کے زمرے میں آتی ہے اور اس کی سزا موت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے، غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ ’ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔‘ یہ آئینی تعریف کی وہ شکل ہے جو آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد سامنے آتی ہے۔
ماہرِ قانون ایس ایم ظفر کے مطابق ’غداری‘ کا لفظ پہلی مرتبہ 1973 کے آئین میں استعمال ہوا۔ تاہم اس وقت دیے جانے والے غداری کے تصور میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تبدیلی آئی۔ جو اضافہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ ’آئین کو معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرنے والا شخص یا ایسے شخص کی امداد کرنے والا شخص غدار ہو گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کےصدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ عمران خان اور قاسم سوری نے واضح طور پر آئین شکنی کی ہے اور غداری کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا ان دونوں کے خلاف آئین شکنی کی دفعات کے تحت آرٹیکل 6 کی کارروائی ہوگی۔
احسن بھون کے مطابق عمران خان نے باعزت طریقے سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے ایک بہت بڑی آئین شکنی کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ غداری کا تعین کرنا اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اس بات کی تحقیق کے بعد وفاقی حکومت شکایت کا آغاز کرتی ہے۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ غداری کی کارروائی کا آغاز وزیرِ داخلہ کر سکتے ہیں تاہم اس کا حتمی فیصلہ وزیرِ اعظم اور وفاقی کابینہ کرتی ہے۔ یعنی عمران خان اور قاسم سوری کے خلاف آئین شکنی کی کاروائی اگلی حکومت کرے گی کیونکہ جو کچھ عمران حکومت نے کیا ہے وہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں غیر آئینی قرار دے دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان دونوں فیصلوں کا سووموٹو نوٹس لیتے ہوئے کارروائی شروع کر دی ہے۔
ایس ایم ظفر کے مطابق 1973 کے آئین میں غداری کا تصور شامل کرنے کے بعد ایک قانون بنایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ایک خصوصی عدالت تشکیل دی جائے گی جو اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی کا آغاز کرے گی، جیسا کہ ہم نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ میں دیکھا۔ انکا۔کہنا ہے کہ یہ ایک فوجداری مقدمہ ہوتا ہے جس کی سزا موت یا عمر قید ہے تو اس میں اسی طرز کی شہادتیں اور گواہان درکار ہوتے ہیں۔ان کے مطابق ’اسی طرح بارِ ثبوت بھی الزام لگانے والے پر یعنی حکومت پر ہو گا۔‘ تاہم ایک بات ہے کہ ایکٹنگ سپیکر قومی اسمبلی اور عمران خان دونوں نے آئین شکنی کی ہے۔

Back to top button