لاہور کی 4 سیٹوں کا الیکشن کونسی جماعت جیتنے والی ہے؟


پنجاب کے ضمنی الیکشن میں صوبے کے دوسرے شہروں کی طرح لاہور کے چاروں حلقوں میں الیکشن مہم اتنے زور و شور سے چلتی نظر نہیں آئی جیسی کے دوسرے حلقوں میں دیکھی گئی۔ ضمنی انتخابات کے لیے مہم جمعے کی رات ختم ہو گئی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن والے دن تحریک انصاف اور نواز لیگ میں سے کونسی جماعت اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر لاکر ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر تو نواز لیگ پر بھاری لگتا ہے اور شاید وہ چار میں سے تین سیٹیں جیت جائے، لیکن ضمنی الیکشن والے دن وہی جماعت کامیابی حاصل کرے گی جو اپنا ووٹر پولنگ اسٹیشنز پر لانے میں کامیاب ہو گی۔

تاہم ایسے میں جب کہ دونوں حریف جماعتوں کی سینئر قیادت نے تقریباً تمام 20 حلقوں میں زبردست عوامی جلسے کیے، لاہور کے 4 حلقوں میں ووٹرز کو نکالنے کے لیے روایتی گھر گھر مہم اور کارکنوں کی کارنر میٹنگز ویسے نہیں ہوئیں جیسا کہ ماضی میں ہوتی ہیں۔ لاہور کے چار میں سے تین صوبائی حلقوں میں تحریک انصاف کو نئے امیدوار دینا پڑے ہیں کیونکہ پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والے اب نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں نواز لیگ کا کچھ ووٹر ایسا بھی ہے جو پچھلے الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کی مخالفت کرنے کے بعد اب اسی کو نواز لیگ کا ٹکٹ دیے جانے پر نالاں نظر آتا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے جیالے نواز لیگ کے امیدواروں کے حق میں لاہور شہر میں جلسے کر رہے ہیں۔ اہم لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انکے امیدواروں کی کامیابی اس لیے یقینی ہے کہ انہیں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور نوازلیگ تینوں کا ووٹ ملے گا۔

لاہور کے حلقہ پی پی-158، 167، 168 اور حلقہ 170 میں جا بجا امیدواروں کے پوسٹرز، بینرز اور فلیکسز ‘جارحانہ انتخابی مہم’ کا پتہ دیتے ہیں لیکن مقامی لوگوں میں الیکشن سے قبل پایا جانے والا روایتی جوش و خروش نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ الیکشن مہم کے دوران ایک ہفتہ عیدالاضحی کی چھٹیاں آگئیں۔ لیکن ایک سروے کے مطابق لاہور کے زیادہ تر شہری ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے اتنے پرجوش نہیں ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ لاہور کے چار حلقوں میں نواز لیگ کے امیدواروں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں سے زیادہ پیسہ خرچا ہے اور زیادہ زور دار مہم چلائی ہے۔ لیکن واپڈا ٹاؤن کے رہائشی ابرار احمد کا کہنا تھا کہ میں لاہور کے ضمنی انتخاب میں کسی پارٹی کو ووٹ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا، اسکا کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی حکومت کی جانب کی گئی مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے تھے لیکن اب تین ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحاد بے نقاب ہو گیا ہے کیونکہ اس نے عوام کے لیے روزمرہ استعمال کی تقریباً ہر استعمال کی اشیاکی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں اطراف کے سیاست دان لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں دلچسپی یا فکر مند نظر نہیں آتے اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتا، کیونکہ عوام کی حالت زار ٹھیک ہونے والی نہیں ہے۔

دوسری جانب سیاسی مبصرین 17 جولائی کو لاہور میں کافی کم ووٹر ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کر رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ضمنی انتخابات میں کلین سویپ کے دعوے کے ساتھ انتہائی سخت مقابلہ متوقع ہے۔
یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے فوراً بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں انتہائی مقبول ہونے والے بیانیے ‘ووٹ کو عزت دو’ کے برعکس شریف خاندان کی پارٹی نے اس بار ایک نیا نعرہ ‘خدمت کو ووٹ دو’ متعارف کرایا ہے جو اتنا مقبول نہیں ہو پایا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نئی حکومت کو سر منڈواتے ہی اگلے پڑ گے اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی روشنی میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنا پڑ گیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ مہنگائی کا جو طو فان کھڑا ہوا ہے اس کی ذمہ داری شہباز شریف پر نہیں بلکہ عمران خان پر آتی ہے جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ یہ عوام دشمن معاہدے کیے۔ لیگی حلقوں نے ووٹ کو عزت دو کی جگہ خدمت کو ووٹ دو کا بیانیہ اپنانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ نعرے کا مقصد اختیارات کا حصول تھا۔ لیکن اب چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر تعلقات اچھے ہو چکے ہیں تو ہمیں اب اس بیانیے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی جگہ ‘خدمت کو ووٹ دو’ نے لے لی ہے جو لوگوں کی خدمت کے ہمارے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایک سیاسی اپیل ہے۔

دوسری جانب عمران خان کی پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو لبھانے کے لیے پارٹی کے منحرف ہونے والے اراکین کو نشانہ بنا رہی ہے، جنہیں وہ لوٹا کہتے ہیں اور جو اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر یہ انتخابات لڑ رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے چار مشترکہ امیدواروں میں سے تین یعنی چوہدری امین ذوالقرنین (پی پی-170)، نذیر چوہان (پی پی-167) اور اسد کھوکھر (پی پی-168)، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین تھے، جنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا، جبکہ چوتھا امیدوار مسلم لیگ ن کا رکن ہے۔ نون لیگ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ضمنی الیکشن میں ان کی جماعت لاہور کی چاروں صوبائی سیٹیں جیت جائے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے قائدین کا دعوی ہے کہ وہ چار میں سے دو سیٹیں جیت جائیں گے، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا ووٹر باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو تو 17 جولائی کو وہ لاہور سے کم از کم ایک سیٹ ضرور جیت لے گی۔

Back to top button