جولائی میں عوام پر کون سا ڈبل عذاب نازل ہونے والا ہے؟

جولائی میں پاکستانی عوام پر ڈبل عذاب نازل ہونے والا ہے چونکہ ایک جانب پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے جبکہ دوسری جانب لوڈ شیڈنگ اپنی انتہا کو چھونے والی ہے۔ حکومتی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی سے ستائے عوام پر پیٹرول بم گرانے کی تیاریاں پھر عروج پر پہنچ گئی ہیں، آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت یکم جولائی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے اضافے کا امکان ہے جب کہ قومی اسمبلی نے پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اگلے چند ماہ میں بتدریج پچاس روپے اضافہ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یکم جولائی سے بجلی نہ صرف مزید مہنگی ہو جائے گی بلکہ لوڈشیڈنگ بھی انتہا کو پہنچ جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے ہی جولائی کے مہینے میں لوڈ شیڈنگ مزید بڑھنے کا عندیہ دیا ہے جس سے عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا اگلے ماہ اس سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگلے روز اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’ہمیں جولائی کے لیے گیس کے جہاز نہیں ملے۔ اس لیے ممکن ہے جولائی میں لوڈ شیڈنگ بڑھے۔‘اس حوالے سے ماہرین اور حکام سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مہنگی ایل این جی نہ خریدنے کے حکومتی فیصلے سے جولائی میں لوڈ شیڈنگ میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
عدالتی فیصلے نے کپتان کا بیرونی سازش کا الزام اڑا دیا
توانائی کے شعبے سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایل این جی کی عدم خریداری اور کوئلے کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاور پلانٹس سے کم بجلی پیدا ہو گی، جس سے جولائی میں لوڈ شیڈنگ میں تھوڑا اضافہ ہو سکتا ہے تاہم اگر زیادہ بارشیں ہوئیں تو شاید اضافہ نہ ہو۔’اس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال تقریباً 7500 میگاواٹ ہے جس کی وجہ سے بڑے شہروں میں چار گھنٹے اور چھوٹے شہروں میں اس سے بھی زیادہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ جولائی اور اگست میں عام طور پر پاکستان میں بجلی کی طلب کافی زیادہ ہوتی ہے مگر یہ ممکن ہے کہ اگر جولائی میں بارش ہو جائے تو ڈیمانڈ کم ہو جائے گی۔
عہدیدار نے بتایا کہ ’تکنیکی مسائل کی وجہ سے کئی بجلی گھر یا تو بند ہیں یا پوری صلاحیت پر کام بھی نہیں کر رہے۔ جیسا کہ تربیلا ڈیم عام طور 3800 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے مگر اس وقت اس سے صرف 1100 میگاواٹ پیدا ہو رہی ہے۔‘’اسی طرح نیوکلیئر توانائی سے چلنے والا کینپ ٹو بھی بند ہے جس سے 1100 میگاواٹ بجلی پیدا نہیں ہو رہی۔ امید ہے کہ جولائی میں اسے ری فیولنگ کے بعد دوبارہ چلایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سیاچن اور دیگر پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنے اور بارشوں کی وجہ سے بھی امید ہے کہ ڈیموں سے بجلی کی پیداوار بڑھ جائے گی۔
لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ لوڈ شیڈنگ میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایل این جی کی ہماری ضرورت 1200 ملین مکعب فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کے گارگوز نہ خریدنے کی وجہ سے 400 ایم ایم ایس سی ایف ڈی کی کمی ہو گی جس سے گیس سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی پیداوار کم ہونگی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ یوکرین کی جنگ اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی ایندھن کی قیمتیں ہیں۔ پاکستان مہنگا ایندھن خرید کر بجلی نہیں بنا سکتا کیونکہ اسکے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی بجلی گھر اپنی صلاحیت کے مطابق چل ہی نہیں رہے۔