23 سال
تحریر : جاوید چوہدری
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس
قائداعظم محمد علی جناح 1930میں ہندوستانی مسلمانوں سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے اور وہاں پریکٹس شروع کر دی‘ دنیا کے تمام سمجھ دار‘ ذہین اور مستقبل بین لیڈروں کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب یہ بری طرح مایوس ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو صورت حال سے الگ کر لیتے ہیں‘ قائداعظم کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ اتحاد کے داعی تھے‘ ان کا خیال تھا مسلمانوں اور ہندوؤں میں صرف عقائد کا فرق ہے‘ یہ دونوں سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ایک ہیں اور اگر یہ مل کر جدوجہد کریں تو بہت جلد آزادی حاصل کر لیں گے۔
قائداعظم نے سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا تھا اور وہاں ان کا سیاسی مستقبل بہت روشن تھا لیکن پھر انھیں 1920میں محسوس ہوا کانگریس ہندو جماعت بن کر رہ گئی ہے اور اس میں مسلمانوں کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے چناں چہ قائداعظم نے کانگریس چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ جوائن کر لی‘ مسلم لیگ اس وقت بہت کم زور اور ڈھیلی جماعت تھی‘ ہندوستان کے مسلمان بھی مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم تھے اور یہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے‘ مال دار مسلمان انگریزوں کے پٹھو تھے‘ یہ انھیں اپنا آقا سمجھتے تھے‘ پڑھے لکھے مسلمان کانگریس میں تھے جب کہ غریب اور بے بس مسلمان سیاست سے کوسوں دور تھے‘ انھیں آزادی میں بھی کوئی دل چسپی نہیں تھی۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ان تینوں طبقوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے انھیں کبھی شیعہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور کبھی انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنا شروع کر دیا لہٰذا وہ وقت آ گیا جب قائداعظم تنگ آ گئے اور انھوں نے سیاست خیرباد کہہ کر اپنے کیریئر پر فوکس کا فیصلہ کر لیا‘وہ ہندوستان سے لندن شفٹ ہوئے اور لاء کی پریکٹس شروع کر دی‘ قائداعظم کے نکلتے ہی کانگریس مضبوط ہو گئی اور اس نے انگریز سرکار کے ساتھ کھل کر مذاکرات شروع کر دیے‘ 1931میں لندن میں پہلی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی‘ بعدازاں اس کے دو مزید سیشن ہوئے‘ ان میں مسلمانوں کی نمایندگی کم زور تھی جس کے نتیجے میں کانگریس نے زیادہ فائدہ اٹھالیا‘ علامہ اقبال کو حالات کی نزاکت کا احساس تھا‘ انھیں محسوس ہو رہا تھا ہم نے اگر یہ وقت ضایع کر دیا تو ہندوستان کے مسلمان انگریز کے بعد ہندوؤں کے غلام ہو جائیں گے اور وہ ہمیں پیس کر ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لیں گے۔
ان کا خیال تھا صرف قائداعظم مسلمانوں کو اس انجام سے بچا سکتے ہیں چناں چہ انھوں نے قائداعظم کو خط لکھنا شروع کر دیے‘ انھوں نے قائداعظم سے لندن میں ملاقات بھی کی اور انھیں قائل کیا مسلمانوں اور ہندوؤں کی آئیڈیالوجی میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ ہم دونوں ایک نہیں ہیں اور ہمیں ایک سمجھنا دنیا کی سب سے بڑی حماقت ہے‘ علامہ اقبال کا فرمانا تھا ہندوستان کے مسلمان معاشی طور پر کم زور ہیں‘ انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کر کے مسلمانوں کو جان بوجھ کر معاشی لحاظ سے کم زور رکھا تاکہ ہم آزادی کے ساتھ سوچ سکیں اور نہ غیرت کے ساتھ زندگی گزار سکیں جب کہ ہندوؤں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور یہ انگریزوں کے ساتھ مل کر معاشی لحاظ سے مستحکم ہو چکے ہیں۔
ہم نے اگر مسلمانوں کو معاشی قدموں پر کھڑا نہ کیا تو شاہین چیلوں کا غلام بن کر رہ جائے گا‘ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک حاصل کرنا ہو گا‘ قائداعظم اس وقت بھی ہندو اور مسلمانوں کو بھائی بھائی سمجھتے تھے لیکن علامہ اقبال نے اپنے ڈیڑھ درجن خطوط اور ملاقات کے بعد انھیں قائل کر لیا اور یوں قائداعظم 1934میں ہندوستان واپس آ ئے‘ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور ایک ایسے مسلمان ملک کی تحریک شروع کر دی جس کے شہری معاشی لحاظ سے خود مختار ہوں تاکہ یہ اپنے فیصلے آزادی سے کر سکیں۔
ہم نے قائداعظم کی قیادت میں 1947میں پاکستان حاصل کیا‘ پاکستان کی تخلیق کی دو بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ ہندوازم اور اسلام کا فرق تھا‘ مسلمان عقیدے کے لحاظ سے ہندوؤں سے مکمل مختلف تھے لہٰذا ان کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں تھا‘ دوسرا ہندوستان کے مسلمان معاشی لحاظ سے کم زور تھے‘ یہ اگر مضبوط معاشی اکثریت کے ساتھ رہتے تووہ انھیں مکمل طور پر غلام بنا لیتی اور یہ ان کے سویپر‘ چپڑاسی اور بیل بوائے بن کر رہ جاتے چناں چہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے مل کر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ملک تخلیق کر دیا جس میں یہ معاشی ترقی کر سکتے تھے‘ جس میں یہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکتے تھے لیکن اب سوال یہ ہے کیا 77سال بعد ہم نے وہ معاشی منزل حاصل کر لی جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا؟ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے نہیں‘ ہم 1947 تک انگریزوں کے معاشی غلام تھے لیکن آج آزادی کے 77 سال بعد ہم پوری دنیا کے غلام بن چکے ہیں اور کشکول اٹھا کر پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں‘ بھارت میں آج 334 کھرب پتی (بلینئریز) ہیں۔
ان میں سے تین خاندانوں یعنی مکیش امبانی (120 بلین ڈالرز) گوتم اڈانی (116 بلین ڈالرز) اور جندل فیملی (44 بلین ڈالرز) کے پاس پاکستان کی کل دولت سے زیادہ سرمایہ ہے‘ ہم اگر پورا پاکستان بیچ بھی دیں تو بھی ہم ان تین ہندوستانی بزنس مینوں کے قریب نہیں پہنچ سکتے اور انڈیا میں ایسے 334 لوگ ہیں جب کہ بھارت میں ہزار کروڑ(10 ارب روپے)کے مالکان کی تعداد 1539 ہے‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بھارت کو معاشی لحاظ سے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے‘ ان کی وجہ سے بھارت کے مالیاتی ذخائر 618 بلین ڈالرز ہیں جب کہ ہم آئی ایم ایف کے سامنے ماتھا رگڑ رہے ہیں اور یہ ہماری بجلی‘ گیس اور ٹیکس تک کا فیصلہ کر رہا ہے۔
ہم نے 77 برسوں میں صرف چار کھرب پتی پیدا کیے لیکن آپ کمال دیکھیے یہ چاروں بھی خاندان سمیت ملک سے باہر بیٹھے ہیں جب کہ انڈیا کے 334 کھرب پتی اور 1539 ارب پتی اپنے ملک میں رہ رہے ہیں اور حکومت دل سے ان کا احترام کرتی ہے چناں چہ سوال یہ ہے آج سے 23 سال بعد جب بھارت اور پاکستان دونوں اپنی آزادی کی سو سالہ تقریبات منائیں گے تو معاشی لحاظ سے انڈیا کہاں کھڑا ہو گا اور پاکستان کہاں ہو گا؟ مجھے خطرہ ہے انڈیا اس وقت معاشی سپرپاور بن چکا ہو گا‘ یہ چین کے برابر ہو گا جب کہ ہم فنانشل مارکیٹ میں اپنا پتا ڈھونڈ رہے ہوں گے‘ ہم بانیان پاکستان سے شرمندہ کھڑے ہوں گے۔
آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے وہ پاکستان جس کی تخلیق کی وجہ معاشی استحکام تھا وہ اس دوڑ سے باہر کیوں اور کیسے ہو گیا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری اندرونی اور بیرونی لڑائیاں ہیں‘ ہم 77 سال سے مسلسل اپنے ہمسایوں سے بھی لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی‘ پاکستان کی پوری تاریخ لڑائیوں سے آلودہ ہے‘ ہم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک امن‘ سکون اور استحکام کا سانس نہیں لیا‘ میرے مرحوم والد کہا کرتے تھے ’’میں نے پوری زندگی اس ملک میں ایک دن بھی بے خوف ہو کر نہیں گزارا‘‘ میرے والد کی آبزرویشن درست تھی‘ آپ 77 برسوں میں کوئی ایک دن دکھا دیں جب ملک میں لڑائی نہ ہوئی ہو‘ ہم پوری دنیا سے لڑ رہے ہیں اور جب لڑ لڑ کر تھک جاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
77 برسوں سے ہمارا مشرقی بارڈر گرم ہے‘ روز وہاں سے فائرنگ کی آواز آتی ہے اور 45 سال سے ہماری مغربی سرحد سے بھی بری خبریں آرہی ہیں‘ ہم نے بدقسمتی سے اس جنگ سے کچھ سیکھنے کے بجائے اب اڈیالہ جیل میں بھی ایک ایٹمی ری ایکٹر بنا لیا ہے اور اس سے بھی روزانہ کی بنیاد پر دھواں نکل رہا ہے‘ مجھے یقین ہے ہم اگر اس مسئلے سے نکل گئے تو پھر ہم ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کو چھیڑ دیں گے اور یہ دونوں رہی سہی کسر پوری کر دیں گے اور اگر یہ مسئلے بھی حل ہو گئے تو پانچواں مارشل لاء کہیں نہیں گیا‘ملک میں ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنو ہو گا‘‘ اور پھر چل سو چل۔ فوجیں ہی فوجیں اور موجیں ہی موجیں اور خودکشی کے اس کھیل میں ہم معاشی غلامی کی دلدل میں مزید سے مزید دھنستے چلے جائیں گے‘ آپ یقین کریں ہمارے پاس صرف 23 سال بچے ہیں‘ ہمیں آج یا کل یہ فیصلہ کرنا ہے 2047میں جب ہم بھارت کے ساتھ اپنی سو سالہ تقریبات منا رہے ہوں گے تو ہم کہاں ہوں گے؟ ہم دو قومی نظریے کو سچ ثابت کریں گے یا پھر اپنے بانیان کو شرمندہ کر رہے ہوں گے۔
آپ ذرا تصور کیجیے اگر 2047میں بھارت کے مسلمانوں کی فی کس آمدنی پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ ہو گئی یا پاکستان کے مالیاتی ذخائر 100 ارب سے زیادہ نہ ہوئے یا ہم 23 سال بعد بھی 126 ویں ترمیم کر رہے ہوئے تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ میں بار بار عرض کر رہا ہوں ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ ہمارے دائیں بائیں اور آگے پیچھے موجود تمام اقوام بہت آگے نکل گئی ہیں۔
افغانستان تک چین کی مدد سے جوتے پہن رہا ہے‘ ہم طالبان کو لاکھ برا کہیں لیکن یہ لوگ افغانستان میں امن قائم کرنے میں کام یاب ہو گئے ہیں‘ پورے ایک سال میں افغانستان میں کوئی احتجاج ہوا اور نہ بم بلاسٹ‘ سڑکیں اور مارکیٹیں بھی محفوظ ہیں وہاں اب معاشی استحکام بھی آ رہا ہے جب کہ ہماری صورت حال پوری دنیا کے سامنے ہے لہٰذا میری درخواست ہے مہربانی فرمائیں اور یہ لڑائیاں بند کریں‘ ملک میں استحکام آنے دیں۔
اپنے سائز کا اقبال
بزنس مین کو سانس لینے دیں اور دن رات ایک کر کے اگلے 23 سال کی پلاننگ کریں تاکہ جب 2047 آئے تو ہم پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوں اور قائداعظم کے مزار کو سیلوٹ کرکے یہ کہہ رہے ہوں جناب دیکھ لیں ہم نے آپ کا دو قومی نظریہ سچ ثابت کر دیا‘ ہم نے آج آپ کے تمام شہریوں کو غربت اور بے روزگاری کے گڑھے سے باہر نکال دیا‘ آج آپ کا ہر شہری معاشی غلامی سے آزاد ہے‘ کاش ہم یہ کہہ رہے ہوں اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر شاید پاکستان دوبارہ ہندوستان میں تحلیل ہو جائے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے بچائے۔