اسلام آباد کے مساج سینٹر سے ISI افسر کو پکڑنے والا ASI بالآخر رہا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک مساج سینٹر سے پکڑے جانے والے خفیہ ایجنسی کے افسر نوید خان کے انتقام کا نشانہ بننے والے بے گناہ پولیس اہلکار ظہور احمد کی سزا کو ڈھائی برس بعد معطل کرتے ہوئے فوری ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، خفیہ ایجنسی کے افسر نے ایک چھاپے کے دوران مساج سینٹر میں مزے لوٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ذریعے اسلام آباد پولیس کے اہلکار ظہور احمد پر ایک روسی سفارتکار کو حساس اور خفیہ دستاویزات بیچنے کا جھوٹا کیس بنوا دیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 30 مئی 2024 کو کیس کی سماعت کے بعد اے ایس آئی ظہور کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ ظہور احمد کی سزا معطل کرنے کے علاوہ اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے گولڑہ پولیس سٹیشن میں تعینات پولیس اہلکار ظہور احمد پر سفارت کار کو خفیہ دستاویزات بیچنے کا الزام 2021 میں لگایا گیا جبکہ وہ ایک برس پہلے ہی 2020 میں اپنی معیاد پوری کر کے پاکستان سے جا چکا تھا۔ استغاثہ نے پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ اس کے پاس ظہور احمد کی دستاویزات دینے اور پیسے لینے کی ویڈیو موجود ہے لیکن جب کیس چلنا شروع ہوا تو پھر یہ موقف اپنایا گیا کہ ملزم نے خفیہ دستاویزات ایک الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے بھیجیں۔ تاہم ظہور احمد کو انصاف ملنے میں ڈھائی برس لگ گئے جو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے۔
ایف آئی اے نے اے ایس آئی ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت 13 دسمبر 2021 کو کیس درج کیا تھا۔ ظہور احمد کے وکیل کا موقف تھا کہ کا اصل قصور یہ ہے کہ اس نے اسلام آباد کے ایک مساج سینٹر پر چھاپے کے دوران آئی ایس آئی کے ایک افسر نوید خان کو اسکے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا۔ اس چھاپے کے دوران چار خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، بتایا جاتا ہے کہ نوید خان نے اے ایس ائی کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے گرفتار کرنے کی غلطی نہ کرنا لیکن وہ باز نہیں آیا۔ چنانچہ رہائی کے بعد نوید نے ظہور کو ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کروا دیا۔ یاد رہے کہ ظہور احمد نے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد ثانیہ حمید کے ہمراہ عوامی شکایت پر سیکٹر ای-الیون تھری میں دو مساج سنٹرز پر چھاپے مارے تھے جن میں سن شائن اور روز ایگزیکٹو نامی مساج سینٹرز شامل تھے۔ نوید خان بھی انہی چھاپوں کے دوران گرفتار ہوا تھا۔
ان چھاپوں کے کچھ روز بعد ہی ظہور احمد کو ایک خفیہ ایجنسی نے اغوا کر لیا تھا۔ اس کے اہل خانہ نے تھانہ گولڑہ میں کیس کے اندراج کی درخواست دیتے ہوئے کہا تھا کہ ظہور پراسرار طور پر لاپتا ہے اور اسکے بارے میں اہل خانہ کو بھی علم نہیں ہے۔ کچھ روز بعد ظہور احمد کی ایک آڈیو سامنے آئی جو اد نے اپنی اہلیہ کے واٹس ایپ نمبر پر بھیجی تھی۔ اس آڈیو میں اسے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مری میں ہے اور سگنل نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں کر سکتا۔ یہ وائس میسج اس لیے مشکوک تھا کہ اگر سگنل نہیں تو پھر وائس میسج بھی نہیں آنا چاہیے تھا۔ تاہم بعد ازاں 30 نومبر 2021 کو ظہور واپس اپنے گھر پہنچ گیا۔ وہ زخمی حالت میں تھا اور اسکے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ظہور کا کہنا تھا کہ اسے مری انہی لوگوں نے ہی پہنچایا تھا جو اکثر سر پھرے صحافیوں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروانے کے لیے اغوا کر لیتے ہیں۔
جب یہ بات باہر نکلی تو ظہور احمد کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اس بار ایف آئی اے نے اس کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 13 دسمبر 2021 کو ایف آئی آر درج کر لی۔ کچھ ماہ بعد اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے ظہور کو تین سال قید کی سزا سنا دی تھی۔ بتایا جاتا یے کہ نوید خان کے کہنے پر ظہور احمد کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے انسدادِ دہشت گردی ونگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عظمت خان نے درج کی تھی۔ تاہم نہ تو نوید خان کے خلاف اس کے ادارے نے کوئی کاروائی کی اور نہ ہی عظمت خان کے خلاف اب تک کوئی ایکشن لیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایف ائی اے اور ائی ایس ائی کے یہ دو افسران آپس میں فرسٹ کزنز بھی ہیں۔
دوسری جانب ظہور احمد کی رہائی کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ چونکہ ملزم کو سزا کم ہوئی اور اس فیصلے کے خلاف اپیل پر اتنی جلدی فیصلہ بھی متوقع نہیں، اس لیے ظہور احمد کی سزا معطل کی جاتی ہے اور اسے ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے دوران ٹرائل ظہور احمد نے دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد کی ہدایت پر ایک جگہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے فوج کے ایک افسر کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ عدالت میں دیے گئے بیان میں ظہور احمد نے مزید کہا تھا کہ فوجی افسر کو اس بات کا دُکھ تھا۔ ظہور احمد کا موقف تھا کہ اسی فوجی افسر نے ان سے بدلہ لینے کے لیے جھوٹی کہانی گھڑی اور پھر اسے گرفتار کروا دیا۔