9 اپریل کی رات عدالتیں کس شخص کی پٹیشن پر کھلیں؟
نو اپریل کو قومی اسمبلی کی سنسنی خیز کارروائی کے دوران جب پوری قوم ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی، عین اُسی وقت ایک وکیل نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا دیا، رات کے آخری پہر جیسے ہی عدالتیں کُھلیں اور پٹیشن دائر ہونے کی خبر نشر ہوئی تو میڈیا اورعوام حیران رہ گئے، سب یہ جاننے کے متمنی تھے کہ پٹیشن کس نے، کس کے بارے میں اور کیوں دائر کی ہے۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ پٹیشنر کوئی اور نہیں بلکہ مولوی اقبال حیدر تھے۔
نو اپریل كی رات جب قومی اسمبلی كا اجلاس چوتھی مرتبہ ملتوی ہوا تو پارلیمنٹ ہاؤس سے چند فرلانگ دور اپنے دفتر میں بیٹھے ایک وكیل تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر كے خلاف عدالت كا دروازہ كھٹكھٹانے كی تیاری كر رہے تھے۔ یہ وكیل كوئی اور نہیں بلكہ مشہور زمانہ مولوی اقبال حیدر ایڈووكیٹ تھے، جن كی وجہ شہرت ایسے ہی دستوری مسائل پر اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر كرنا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کو اس رات كا قصہ سناتے ہوئے مولوی اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ جب آخری مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو میں سمجھ گیا كہ حکومت نے ووٹنگ نہیں كرانی، چنانچہ میں نے اپنے سٹینو كو بلایا اور جلدی سے تین درخواستیں ٹائپ كروا دیں۔ مولوی اقبال حیدر نے تقریباً آدھی رات كو پارلیمنٹ ہاؤس سے متصل سپریم كورٹ میں پٹیشن داخل كی، جس میں انہوں نے عدالت سے بذریعہ فوج سپریم كورٹ كے سات اپریل كے حكم پر عمل درآمد كی استدعا كی۔انکا کہنا تھا کہ اسی دوران مجھے خبر ملی كہ اسلام آباد ہائی كورٹ بھی كھل گئی ہے، تو میں ادھر بھاگا اور وہاں بھی دو پٹیشنز داخل كر دیں۔
ان میں سے ایک پٹیشن فوجی قیادت میں ممکنہ تبدیلی روکنے کے لیے تھی اور دوسری عمران خان اور چند وزرا کے خلاف غداری کا کیس درج کرنے کی تھی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
عمران خان کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کی درخواست کا غلط مطلب لیا ہے جس کے خلاف وہ اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں، 62 سالہ مولوی اقبال حیدر كا تعلق كراچی سے ہے اور وہ وہیں بحیثیت وكیل پریكٹس كرتے ہیں، وہ آٹھ اپریل كو شہر اقتدار آ پہنچے تھے، اور آتے ہی سپریم كورٹ میں توہین عدالت كی پٹیشن دائر كر دی ۔ ڈپٹی سپیكر قاسم سوری نے عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک تین اپریل كو مسترد كر دی تھی، جسے سپریم كورٹ میں چیلنج كیا گیا تھا۔ عدالت نے سات اپریل كے فیصلے میں تحریک پر نو اپریل كو ووٹنگ كروانے كا حكم دیا تھا، تاہم قومی اسمبلی كا اجلاس آدھی رات تک جاری رہا، اور بظاہر یہی لگتا تھا کہ حکومت کا ووٹنگ کروانے کا ارادہ نہیں۔ اس دوران آرمی چیف کی برطرفی کے حوالے سے بھی افواہیں آنا شروع ہوگئیں چنانچہ انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل ممکن ہو سکا۔
یاد رہے کہ مولوی اقبال حیدر پہلی بار تب منظر عام پر آئے تھے جب انہوں نے 1998 میں تب کے وزیراعظم نواز شریف كے خلاف سپریم كورٹ میں توہین عدالت كی درخواست دائر کی تھی۔
اسی درخواست كے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف كو 1999 میں عہدے سے برطرفی كے بعد سپریم كورٹ میں پیش كیا گیا تھا۔
نواز شریف حكومت كا تختہ الٹا کر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسی مولوی اقبال حیدر نے سال 2000 میں ’پرویز مشرف حمایت تحریک‘ كے پلیٹ فارم سے آمر مطلق کی ٹیلی ویژن پروگرامز میں وکالت شروع كر دی تھی۔ مولوی اقبال حیدر كا كہنا تھا كہ انہی كی ایک درخواست كے نتیجے میں سپریم كورٹ نے جنرل مشرف كو تین سال تک اقتدار میں رہنے كی اجازت دی تھی، تاہم 2008 میں مشرف کے خلاف پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے مشترکہ طور پر مواخذے کی تحریک داخل کی تو مولوی اقبال حیدر نے اپنی ’مشرف حمایت تحریک‘ کا نام بدل كر ’عوامی حمایت تحریک‘ كر دیا۔
مشرف حكومت کے خاتمے کے بعد اسی اقبال حیدر نے پوزیشن بدلتے ہوئے سابق فوجی صدر کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی كراچی آمد پر 12 مئی 2007 کو ہونے والے قتل عام کے بعد بھی اقبال حیدر نے افتخار چوہدری کے خلاف كراچی كی مقامی عدالت میں درخواست دی كہ انہیں اس سانحے كا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ مولوی اقبال حیدر كی اس حرکت سے ملک بھر كی وکلا برادری ان سے برہم ہوئی، اور عدالت كے احاطے میں ان كے داخلے پر پابندی لگا دی گئی، ان كی غیر حاضری كے باعث جسٹس افتخار چوہدری كے خلاف انکی دائر درخواست خارج كر دی گئی تھی۔
مولوی اقبال حیدر كہتے ہیں كہ انہوں نے سابق وزیراعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو كے خلاف بھی عدالت سے رجوع كیا تھا، جبكہ متحدہ قومی موومنٹ لندن كے سربراہ الطاف حسین بھی ان كی اس کارروائیوں كا نشانہ بن چكے ہیں۔ایک وقت میں مولوی اقبال حیدر كی سپریم كورٹ كی عمارت میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، جسے بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے ختم كیا تھا۔
تاہم مولوی اقبال حیدر کو وکلا کے حلقوں میں ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو كسی بھی قسم كی پٹیشن داخل كرنے كے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے، اقبال حیدر مختلف حكومتوں، وزرا اعظم، ریاستی اداروں، سیاسی شخصیات اور حتٰی كہ صحافیوں كے خلاف بھی ملک كی مختلف عدالتوں میں درخواستیں داخل كر چكے ہیں۔ جب پوچھا گیا كہ آپ ایسی درخواستیں كیوں جمع كرواتے ہیں تو مولوی اقبال نے كہا کہ میں تو دستور كی بالادستی كے لیے ایسا كرتا ہوں، تاہم موصوف کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یہ سب كسی خفیہ اشارے پر كرتے ہیں۔
مولوی اقبال حیدر مذہبی سكالر نہیں ہیں، نہ ہی انہوں نے کوئی دینی تعلیم حاصل كر ركھی ہے، اسی لیے ان كے نام كے ساتھ ’مولوی‘ كا لاحقہ اكثر لوگوں كے لیے حیرانی كا باعث بنتا ہے، لیکن اسكے پیچھے بھی ایک كہانی ہے، ہوا كچھ یوں ہے كہ جنرل پرویز مشرف كے دور میں انہوں نے حسب معمول ایک پٹیشن دائر كر ركھی تھی۔
اس درخواست كی سماعت جسٹس سعید الزمان صدیقی کر رہے تھے، اور كمرہ عدالت میں سابق وفاقی وزیر قانون اور پیپلز پارٹی كے رہنما اقبال حیدر بھی موجود تھے، مولوی اقبال حیدر نے یہ قصہ سناتے ہوئے كہا كہ ہم دونوں اقبال حیدر تھے اور جج صاحب كو دونوں کو مخاطب کرنے میں كنفیوژن ہو رہی تھی، اس لیے انہوں نے مجھے مولوی اقبال حیدر كہہ كر پكارنا شروع كر دیا، جج نے مجھے میری داڑھی كی وجہ سے مولوی كہا، دوسری جانب موجود اقبال حیدر مرحوم كی داڑھی نہیں تھی، چنانچہ وہ دن اور آج کا دن، ملک بھر كی عدالتوں میں درخواستیں داخل كرنے والے اقبال حیدر كا نام مولوی اقبال حیدر پڑ گیا۔