کیا تحریک انصاف اور تحریک لبیک انتخابی اتحاد بنائیں گے؟


وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحریک لبیک سے کیا گیا خفیہ معاہدہ بچانے کے لیے وزراء کو منفی گفتگو سے منع کرنے کے باوجود فواد چوہدری کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور انھوں نے یہ وارننگ دے دی ہے کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف اور لبیک کے مابین الیکشن الائنس کی تجویز انکی پارٹی کو تباہ اور پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی کا شکار کر دے گی۔
   یاد رہے کہ اس سے پہلے حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدہ کروانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے مفتی منیب الرحمان کئی مرتبہ چوہدری فواد کے خلاف کئی مرتبہ سخت گفتگو کر چکے ہیں لیکن زبان بندی کے احکامات کی وجہ سے فواد چوہدری نے جواب نہیں دیا تھا۔ تاہم لبرل سمجھے جانے والے فواد کو تحریک لبیک اور تحریک انصاف کے الیکشن الائسنس کی خبریں ہضم نہیں ہو پائیں چنانچہ انہوں نے لبیک سے حکومتی معاہدے اور وزیراعظم عمران خان کی احتیاط برتنے کی ہدایات کے باوجود دو نومبر کو اپنی ایک ٹویٹ میں لکھ دیا کہ ’مذہبی انتہا پسند گروہوں کے پاس ہجوم کے زور پر تشدد کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن انکی سیاسی صلاحیتیں ہمیشہ محدود رہی ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک وقت تھا جب سنی تحریک ٹی ایل پی سے زیادہ پرتشدد تھی لیکن اب اس کے پاس وہ طاقت نہیں۔‘ فواد چوہدری نے کہا کہ ’یہ جماعت یعنی تحریک لبیک بھی جلد ختم ہوجائے گی اور اس سے کاسی قسم کا الیکشن اتحاد ملک کے بین الاقوامی تنہائی کا باعث بنے گا۔‘
یاد رہے کہ فواد چوہدری اس سے قبل بھی تحریک لبیک پر کافی تنقید کرچکے ہیں اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس تنظیم کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے گا جیسا کہ دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں مفتی منیب الرحمان نے کہا تھا کہ فواد چوہدری اور شیخ رشید کے منہ کو بواسیر ہو چکی ہے۔ مفتی اور فواد کے مابین چپقلش تب سے برقرار ہے جب منیب چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ہوا کرتے تھے اور فواد ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس چپقلش میں تب مذید اضافہ ہوگیا جب فواد نے بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چاند دیکھنے کے لئے سائنسی طریقہ کار اپنانے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے ایک طریقہ کار وضع کر لیا۔ بعد ازاں جب مفتی منیب کو بطور چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ہٹایا گیا تو بھی ان کا یہی خیال تھا کہ اس معاملے میں فوادچوہدری نے مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اب مفتی صاحب گن گن کر فواد سے بدلہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں خصوصاً جب انہیں معلوم ہے کہ وزیراعظم نے اپنے وزراء کو تحریک لبیک کے بارے میں گفتگو سے منع کر رکھا ہے۔ تاہم جب تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے تحریک لبیک اور تحریک انصاف کے مابین اگلے الیکشن میں انتخابی اتحاد کے امکان کا اظہار کیا تو فواد چوہدری سے نہیں رہا گیا اور انہوں نے ایک ٹی ایل پی مخالف ٹویٹ ڈال دی۔ فواد کا پرائیویٹ محفلوں میں بھی یہی موقف ہے کہ اگلے عام الیکشن میں تحریک لبیک کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے بڑا کوئی بلنڈر نہیں ہو سکتا اور بہتر یہی ہے کہ اس تنظیم پر پابندی برقرار رکھی جائے۔
دوسری جانب تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام وزراء کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اس معاملے پر کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیں گے اور صرف شاہ محمود قریشی اور علی محمد خان ہی بولنے کے مجاز ہوں گے۔ معاہدے کی شقوں کو انتہائی خفیہ رکھا جا رہا ہے اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت نے ٹی ایل پی پر عائد پابندی ختم کرنے اور اسے سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی کر لیا یے۔ تاہم چونکہ معاہدے پر عمل درآمد کی کچھ سٹیجز ہیں اس لئے لیے بیان بازی میں احتیاط برتی جارہی ہے۔ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اگر سرکاری وزراء نے اس معاملے اور دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر گفتگو کی تو مرد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ٹی ایل پی کو اسی حکومت نے اپریل 2021 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے اعلان کیا تھا کہ تحریک لبیک اب ایک شدت پسند تنظیم بن چکی ہے لہذا اس پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ بعد ازاں لبیک کی جانب سے حالیہ مظاہروں کے بعد فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں دعوی کیا تھا کہ حکومت کو تحریک لبیک کی بھارتی فنڈنگ کے ثبوت ملے ہیں اور اب اس جماعت سے عسکریت پسند تنظیم کے طور پر نمٹا جائے گا۔ لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور حکومت نے شدت پسندوں کی سٹریٹ پاور کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے دوبارہ سے معاہدہ کر لیا۔ اب اس معاہدے کے تحت سعد رضوی کی رہائی اور تحریک لبیک سے پابندی اٹھائے جانے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کی قیادت نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ بطور پنجاب کی تیسری بڑی جماعت، تحریک لبیک اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سیاسی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے اور اگر اگلے الیکشن میں تحریک انصاف اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد کرنا چاہے گی تو اسے خوشی ہو گی۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔

Back to top button