کیا پاکستان میں مارشل لاء کا کوئی امکان موجود ہے؟


معروف تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں موجودہ سیاسی بے یقینی کی کیفیت ختم نہ ہوئی تو فوج کو ‘وسیع تر قومی مفاد’ میں ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونے کا بہانہ مل سکتا ہے اور ایسی افواہیں پہلے ہی ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر لکھتے ہیں کہ 3 نومبر کی شام کو سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے لانگ مارچ کے دوران ایک حملے میں بال بال بچ گئے، لیکن اس حملے کے بعد سے ملک میں جمہوریت کی بقا کو نئے خطرات کا سامنا ہے۔ عمران پاکستان کے تیسرے سابق وزیر اعظم ہیں جن پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1951 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 2007 میں بے نظیر بھٹو کو الیکشن ریلی کے دوران ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ پہلے دو وزرائے اعظم کو راولپنڈی میں عوامی جلسوں میں شہید کیا گیا لیکن خوش قسمتی سے وزیر آباد میں ہونے والے حملے میں عمران خان معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

حامد میر کے مطابق حملے سے پہلے عمران ایک سازش کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی جائے گی۔ انکے مخالفین نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔ اگرچہ اب اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ عمران خان پر حملہ کرنے والے شخص نے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر اپنے طور پر ہی یہ حملہ کیا تھا اور اس کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی۔ تاہم عمران خان نے خفیہ ایجنسی کے افسران اور چند حکومتی شخصیات پر الزام لگا کر سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ فائرنگ کے چند گھنٹوں کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور آئی ایس آئی کے اہلکار میجر جنرل فیصل نصیر پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام لگا دیا۔ لیکن عمران نے اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

ان کے یہ الزامات دھماکہ خیز ہیں کیونکہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس اہلکار کو قتل کی سازش میں نامزد کرنے کا مطلب پوری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم شروع کرنا ہے۔ عمران ماضی میں فیصل نصیر کو بار بار تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہیں ‘ڈرٹی ہیری’ کہہ کر بھی پکارتے رہے ہیں۔ انہوں نے فیصل پر اپنے دو قریبی ساتھیوں سینیٹر اعظم سواتی اور شہباز گل کو حراست کے دوران تشدد کا نشانہ بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عمران نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ بھی انہوں نے ہی دیا تھا کیونکہ ارشد کی جان کو خطرہ تھا۔ 23 اکتوبر کو جب ارشد شریف کو کینیا میں پراسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا تو عمران نے ایک مرتبہ پھر فوج پر ہی انگلی اٹھائی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران کے فوج پر براہ راست حملوں نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرنے پر مجبور کر دیا جس میں انہوں نے خان کے ان دعوؤں کو رد کیا کہ پاک فوج نے مداخلت کر کے عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے یہ بیانات میری رپورٹنگ سے بھی مطابقت رکھتے ہیں جو میں پورا سال کرتا رہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ عمران خان نے آرمی چیف قمر باجوہ کو مدت ملازمت میں اس شرط پر توسیع دینے کی پیش کش کی تھی کہ بدلے میں آرمی چیف عمران کی حمایت کریں، لیکن آرمی چیف نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔ یہ منظرنامہ تصدیق کرتا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ موجودہ افراتفری اور سیاسی بے یقینی کا مرکز بن چکا ہے۔ آرمی چیف رواں ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان سے رابطہ کیا تھا۔ عمران اس تعیناتی پر شہباز شریف کے ساتھ اتفاق رائے چاہتے تھے لیکن شہباز نے اس معاملے پر عمران کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ انکا صوابدیدی اختیار ہے اور انہیں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں۔

حامد میر کے بقول عمران خان کے ساتھیوں کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ جاری ہے جس میں وہ خود بھی شریک ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت نیا آرمی چیف لگانے جا رہی ہے، عمران خان سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عمران کے اعلیٰ فوجی قیادت پر حملوں نے ان کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے پارٹی کے فوج مخالف بیانیے کے خلاف بغاوت کر دی جنہیں فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں انقلاب آ چکا ہے لیکن حکومت کے خلاف عام لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ اس سے ان کے مخالفین کو کہنے کا موقع ملا ہے کہ عمران سب کچھ صرف فوجی سربراہ کی تقرری کو ملتوی کروانے یا متنازعہ بنانے کے لئے کر رہے ہیں۔ عمران بار بار اسٹیبلشمنٹ پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن انہوں نے پنجاب حکومت کے کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو اس لانگ مارچ کے دوران ان کی حفاظت کی ذمہ دار تھی۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ حملہ آور کے دعوے عمران کے الزامات سے یکسر مختلف ہیں۔ حملہ آور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اس نے فوراً ایک اعترافی بیان دیا جس میں اس نے کہا کہ وہ مذہبی وجوہات کی بنا پر عمران کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ عمران خان کی پارٹی اس بات پر ناراض تھی کہ قاتل کا بیان میڈیا تک کیسے پہنچ گیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے سکیورٹی میں کوتاہی کے معاملے پر پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اس نے پولیس کی سرزنش صرف اس معاملے پر کی کہ اس نے حملہ آور کا بیان کیوں جاری کر دیا۔ اس کے بعد سے پولیس نے فائرنگ کرنے والے شخص کی مزید ویڈیوز شیئر کی ہیں، جن میں وہ ایک مذہبی تنظیم کا رکن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ شاید عمران خان کی اپنی صوبائی حکومت میں کوئی ایسا ہے جو ان کے مخالفین کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ابھی تک ہم پورے سچ سے بہت دور ہیں۔ صرف ایک آزاد عدالتی انکوائری ہی عمران خان کی جان پر حملے کے پس پردہ حالات و واقعات سے پردہ اٹھا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسے وقت میں ایک اور سیاسی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جب فوری طور پر ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے لئے اس حملے کے نتائج تباہ کن ہونے کا امکان ہے۔ عمران پر حملے کے فوراً بعد احتجاجی ریلیاں شروع ہو گئیں۔ ان کے سپورٹرز فوج مخالف نعرے لگا رہے ہیں اور اچھل کود کر رہے تھے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بدستور خراب رہتی ہے تو فوج کو ‘وسیع تر قومی مفاد’ میں ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونے کا بہانہ مل جائے گا۔ فوج کے اقتدار سنبھالنے کی سرگوشیاں اور افواہیں پہلے ہی ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ عمران خان بھی کچھ دن قبل کہہ چکے ہیں: ‘مارشل لا لگتا ہے تو لگ جائے، مجھے فرق نہیں پڑتا’۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران چاہے مارشل لا سے نہ ڈرتے ہوں مگر یقیناً میں اس سے خوف زدہ ہوں کیونکہ مارشل لا نے 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے تھے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ مذاکرات کریں اور اس بحران کا حل نکالیں۔ کسی بھی صورت میں فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔

Back to top button