کیا جنرل عاصم منیر جنرل باجوہ سے مختلف ثابت ہوں گے؟

فوج کو سیاست کی دلدل میں دھکیلنے کے بعد جان قمر باجوہ جاتے ہوئے اسے غیر سیاسی کرنے کا اعلان تو کریں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کی جگہ لینے والے جنرل عاصم منیر اس چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ تین سال بعد جنرل عاصم منیر بھی جنرل باجوہ کی طرح ہی رخصت ہوں گے یا ایک ایسے سپہ سالار کے طور پر الوداع کہیں گے جو تاریخ میں دیر تک زندہ رہے گا۔

ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ، اقتدارِ کُلّی کے قصرِ پُر شکوہ سے نکل کر، ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرہِ بے آب و رنگ میں جاب بیٹھے ہیں لیکن جاتے جاتے وہ آبنوسی چھڑی کے ساتھ ساتھ پہاڑ جیسا چیلنج بھی عاصم منیر کے سپرد کرگئے، اپنے الوداعی خطاب میں انہوں نے غیر مبہم الفاظ میں، قدرے تفاخر کے ساتھ اعلان کیا کہ 2022 میں موسم بہار کے بعد کے بعد سے فوج غیر سیاسی ہوگئی تھی اور اب اُس کا سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔

اِس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی، جنرل ندیم انجم یہی بات اپنی مشہور زمانہ پریس کانفرنس میں زیادہ وضاحت اور تفصیل سے کرچکے ہیں۔ لہٰذا واضح کیا گیا کہ یہ کوئی جُزوَقتی، لمحاتی یا انفرادی نہیں بلکہ ادارہ جاتی فیصلہ ہے جو طویل داخلی مباحثے کے بعد کیاگیا ہے۔ مزید کہا گیا کہ آئندہ پندہ برس تک آنے والی فوجی قیادت بھی اس فیصلے میں شریک ہے۔ ایک خلیجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل باجوہ نے یقینِ کامل کے ساتھ اعلان کیا کہ اب پاک فوج صرف اپنے آئینی پیشہ ورانہ کردار تک محدود رہے گی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ فیصلے اور اعلان کی حد تک یہ ہماری تاریخ کی بہت بڑی پیش رفت ہے لیکن اِس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک موثر، واضح اور قابل عمل پالیسی تراشنا اور قوم کے دل وماغ میں راسخ ہوجانے والے تصور کو کھرچ ڈالنا، کارِ آساں نہیں۔ نئے آرمی چیف کے لئے ایک تاریخ ساز ایجنڈا طے کردیاگیا ہے اور اِس ایجنڈے کی تکمیل، اُن کی کارکردگی جانچنے کا سب سے بڑا پیمانہ ہوگی۔ ایک بات طے ہے۔ پاکستان کے لوگ فطرتاً اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ فوج کی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم بنانے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ فوج اور عوام کے مابین اگر فاصلے بڑھے ہیں تو اس کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں۔ اِن اسباب ومحرکات کے تدارک کے لئے فوج جس فیصلے پر پہنچی ہے، اس پر عمل درآمد کے دو پہلو ہیں۔ ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ نئے سپہ سالار کو اپنے رفقا کے تعاون سے جائزہ لینا ہوگا کہ فوج کے اندرونی نظام کی کون سی چُولیں کسنے کی ضرورت ہے۔

کون سی باتیں فوج کے وقار کو مجروح کرتی اور چوپالوں کا موضوع بنتی ہیں۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹیز کے وسیع وعریض اور مسلسل فروغ پذیر نیٹ ورک، درجنوں صنعتی و کاروباری منصوبے، پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کاروبار، پُرکشش سول عہدوں کا حصول، مارشل لائوں کے باعث سول معاملات میں تجاوزات کا معاملہ، عمومی عالمی جمہوری روایات کے برعکس دفاعی بجٹ کا پارلیمنٹ سے پوشیدہ رہنا، ریٹائرمنٹ کے بعد وسیع زمینی رقبوں کا تحفہ اور ایسے دیگر معاملات اور مفادات کا جائزہ لینا ہوگا جن کا دوسرے جمہوری ممالک میں کوئی تصور نہیں۔

عرفان صدیقی کے مطابق اصلاحِ احوال کا دوسرا اور اہم پہلو خارجی نوعیت کا ہے جسے ہم سیاسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ تخلیق پاکستان سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا۔ ایوب خان کا طویل مارشل لا، یحییٰ خان سے ہوتا ہوا سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا۔سات دہائیوں پر مشتمل سول ملٹری تعلقات کے عدم توازن نے آج تک پولیو زدہ جمہوریت کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ مجھے نہیں معلوم فوج کے نزدیک، غیرسیاسی ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ قرینِ قیاس یہی ہے کہ آئندہ ہم کسی سیاسی جماعت کی سرپرستی نہیں کریں گے، کوئی سیاسی بُت نہیں تراشیں گے۔

انتخابات میں دخل نہیں دیں گے، حکومتوں کے جوڑتوڑ سے لاتعلق رہیں گے اور معاملاتِ ملک و قوم کی صورت گری عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت پر چھوڑ دیں گے۔ یہ انتہائی اہم اور نہایت ہی خوش آئند اقدامات ہوں گے۔لیکن جمہوری حکومت یعنی عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل نظام کو پُر وقار بنانے کے لئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مہذب ممالک کی روایات کیا ہیں؟ کیا وہاں سفارتی نمائندے آرمی چیف سے مسلسل اور تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں؟ کیا بیرونِ ملک سے آنے والے عمائدین صدر، وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف سے بھی ملتے ہیں؟

 کیا مشاورت کے دائرے سے آگے نکل کر کوئی سپہ سالار اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی وضع کرسکتا ہے؟ کیا وہاں فوج کا سربراہ میڈیا میں ریاست وحکومت کے سربراہ جیسی یا ان سے ذیادہ تشہیر پاتا ہے؟ کیا وزیراعظم یا صدر کی طرح ہر موقع پر آرمی چیف کی طرف سے بھی بیانات جاری ہوتے ہیں؟ یہ فہرست خاصی طویل ہے۔

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ بارہ چودہ سال میں جو کچھ ہوا، اُس نے عملاً سارے دستوری ڈھانچے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ نامطلوب افراد کے خلاف مطلوب فیصلے لینے کے لئے وہ کچھ ہوا کہ عدلیہ پر مشرف کا برہنہ حملہ بھی گردِ پا ہوگیا۔ ماضی میں شاید ہی یہ تاثر اتنا قوی رہا ہو کہ کہیں اور کے فیصلے کسی اور کے کنجِ لب سے پھوٹتے ہیں۔

صحافت کو ایسے بے ننگ ونام تجربوں کی لیبارٹری بنادیاگیا کہ قرطاس وقلم کی آبرو جاتی رہی۔ سیاست کے بعد ایک بت کدہ صحافت میں بھی سجایا گیا۔ بیوروکریسی کبھی اتنی توانا نہیں رہی کہ دستوری نظام اور جمہوری اقدار کی پاسبانی کرتی۔ اِس دور میں تو وہ بالکل ہی کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گئی۔ ریاست کے سبھی عناصر ِ ترکیبی ناتواں اور منتشر ہوگئے۔ نہیں کہا جاسکتا یہ زنجیریں کب اور کیسے کٹیں گی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ محسن داوڑ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔ مقدمات میں جکڑے علی وزیر کی خطا معاف ہونے میں نہیں آرہی۔ لاپتہ افراد کا سراغ پانا محال ہے۔ یہ سارے بکھیڑے سمیٹنے کے لئے خاصی ریاضت مقصود ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ کیا نئے آرمی چیف، جنرل سید عاصم منیر یہ سب کچھ کر پائیں گے؟ فوج پہلے ہی ایک فیصلہ کرچکی ہے، اسی لئے انہیں یقیناً اپنی سپاہ سے بھرپور تعاون ملے گا۔ عوام اور جمہوری فکر کے حامل سیاستدان اُن کے شانہ بہ شانہ رہیں گے۔میڈیا کی توانائیاں اُن کا دست وبازو بنیں گی۔اللہ کے فضل وکرم سے تین سال بعد وہ ایک ایسے سپہ سالار کے طور پر رُخصت ہوں گے جو تاریخ میں دیر تک زندہ رہے گا۔ یہ تین سال سید عاصم منیر کا’’ عہد ‘‘قرار پائیں گے۔ لیکن خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو وہ سولہویں کے بعد محض سترہویں کے طور پر جانے جائیں گے اور ایک دن ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرہ بے آب و رنگ میں جا بیٹھیں گے۔

Back to top button