کیا سعادت حسین منٹو آخری ایام میں پاگل ہوگئے تھے؟

سعادت حسن منٹو کی زندگی اور فن کے مختلف پہلوؤں پر سینکڑوں ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں، لیکن ان کی زندگی پر ایک ایسے سائیکائٹرسٹ کے خیالات شاید پہلے سامنے نہیں آئے جنہوں نے منٹو کے آخری ایام میں ان کا علاج بھی کیا تھا۔کیا منٹو کو بجلی کے جھٹکے لگتے تھے، کیا وہ پاگل پن کا شکار تھے؟ ہسپتال میں ان کا رویہ کیا تھا؟ ان کا علاج کیسے کیا جاتا تھا، ڈاکٹر حسن منظر منٹو سے زیادہ طویل گفتگو کیوں نہیں کرتے تھے؟ منٹو نے کون کون سے افسانے کہاں سے سرقہ کیے، اس جیسے کئی اہم اور دلچسپ سوالوں کے جواب ہمیں حسن منظر صاحب نے فراہم کیے۔انڈیپنڈنٹ اردو کے مصنف ڈاکٹر اسامہ بن زبیر جوکہ سائیکاٹرسٹ بھی ہیں نے بتایا کہ ڈاکٹر حسن منظر، کم گو، ادبی حلقوں سے لاتعلق مگر 89 سال کی عمر میں بھی فعال اور نابغۂ روزگار فکشن نگار۔ 2021 کی ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھے جب منٹو لاہور کے میو ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں زیر علاج تھے جسے اس وقت پاگل خانہ بھی کہا جاتا تھا۔منٹو سا شخص ذہنی بیماروں کے درمیان خود آتا تھا یا لایا جاتا تھا؟ وپاں اس کا برتاؤ کیسا ہوتا تھا؟ جو عمارت شراب اور غم ڈھا رہے تھے، ڈھتے ہوئے کیسی تھی؟ اس وقت کے مسیحا علاج کے محدود طریقوں میں رہ کر کیسے فکشن کے اس ناخدا کی مدد کرتے تھے؟ اس کے ذہن و جسم میں کیا چلتا تھا؟ اور پھر 18 جنوری 1955 کو منٹو کی سانس تھم گئی اور اس کی جاندار مٹی لاہور کی بے جان مٹی میں ملا دی گئی۔حسن منظر صاحب اس وقت میڈیکل سٹوڈنٹ تھے اور بعد میں ماہر نفسیات بنے، ان کا کہنا تھا کہ منٹو کبھی بھی سائیکوٹک نہیں تھے یعنی ان کا حقیقت سے رابطہ منقطع نہیں ہوا تھا۔ البتہ ہو سکتا ہے جگر کے سروسس کی وجہ سے ان پر نیم بے ہوشی کی کیفیت آتی ہو۔ اسی قسم کی کیفیت شراب کے عادی افراد میں بھی آتی ہے اور delirium tremens کہلاتی ہے۔ڈاکٹر حسن منظر نے منٹو کے شراب زدہ دور کی disinhibition (رکاوٹیں توڑنے کا عمل) کو بھی اچھے الفاظ میں یاد نہ کیا۔ فرمایا، ’ادیب پہ معاشرتی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ بڑے ادیب کو زیب نہیں دیتا کہ وہ معاشرے میں ذومعنی جملے زبان زد عام کرائے۔ کچھ منٹو کی شخصیت اور کچھ مے نوشی نے دماغ کی فرنٹل لوب کو متاثر کیا۔ ان کا دماغ تیل اور پانی کا فرق بھول گیا۔’سوچا ہوا ہر خیال بنا فلٹر کے اگلا جانے لگا۔ الکحل کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ ’بہت پھینٹ چکا، پتہ پھینک‘ اور اس قسم کے جملوں کا منچلے نوجوان انتظار کرتے تھے۔ اسی کیفیت میں انہوں نے کردار کشی کی حد تک لوگوں کے بارے میں غلط باتیں بھی لکھیں۔انڈیپنڈنٹ اردو کے مصنف نے بتایا کہ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے منٹو کی شخصیت اور طرزِ عمل کے بارے میں پوچھا۔ یادیں ان کے لاہور کے اولین دنوں سے شروع ہوئیں۔ کیمل کلر کا اوور کوٹ، سفید شلوار کرتے پر۔ لکشمی چوک سے تانگے پر بیٹھتے تھے اور رائل پارک میں فلم والوں کے علاقے میں غائب ہو جاتے تھے۔احمد راہی نے ڈاکٹر منظر کو بتایا کہ یہ منٹو ہیں اور بمبئی سے لاہور آ چکے ہیں۔ ’مرلی کی دھن‘ اسی زمانے کا افسانہ ہے۔ نیا ادارہ، بھاٹی گیٹ کے اندر، مدیر کی کرسی پر منٹو براجمان ہوتے تھے اور رائٹنگ پیڈ پر لکھتے رہتے تھے۔ بیچ میں کچھ دیر کے لیے غائب بھی ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر حسن منظر صاحب سے ایسے ہی ان کی جان پہچان بڑھی۔ایک روز معلوم ہوا کہ منٹو اب تانگے پر نہیں بلکہ ڈاکٹر پیرزادہ کے وارڈ میں ملیں گے۔ شراب نوشی نے ان کے جسم و دماغ پر قبضہ جما لیا تھا زندگی موت کی جانب سرکنا شروع ہو گئی تھی۔ ہسپتال میں مسز منٹو کو جب ڈاکٹر منظر نے مرزا غالب کی زندگی پر بننے والی فلم ’مرزا غالب‘ پر بنی فلم دیکھنے کا بتایا تو وہ بولیں کہ ’منٹو کہتے ہیں کہ امرتسر میں جب لگے گی تو میں خود دیکھنے جاؤں گا۔کھنچی ہوئی لکیر کی حقیقت سے شاید ان کے کردار آشنا تھے مگر وہ ڈینائل میں تھے۔ یا پھر الکحل اور سروسس سے متعلق دماغی خلل آنے لگا تھا۔ احمد راہی کو بھی منٹو نے کہا کہ ’میں ویکھنا چاھندا کہ بیدی نے میرے سکرین پلے نال کی کیتا اے۔‘ڈاکٹر حسن منظر بھی مجھ سے متفق تھے۔ ’صبح سے شام تک مجھے لکھ کے دینا ہے، تب میری بوتل کی قیمت پوری ہو گی۔ یہ بوتل تھی جس نے منٹو کو مارا۔پھر ڈاکٹر حسن منظر نے ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مسز منٹو کو ڈاکٹر نے منٹو کے لیے کچھ دواؤں کا بتایا جو مارکیٹ میں کمیاب تھیں۔ ڈاکٹر حسن منظر کو معلوم ہوا تو انہوں نے سیمپلز وغیرہ فراہم کرنے کی آفر کی جس پر مسز منٹو نے معذرت کر لی کہ منٹو امدادی دوائی قبول نہ کریں گے۔ایک آدھ قصے، فلم یا ڈرامے میں انہیں ای سی ٹی یعنی بجلی کا علاج لگتا بھی دکھایا گیا۔ صرف شراب ہی تھی جو پہلے منٹو کے فن کو، پھر جگر کو اور آخر میں ان کو کھا پی گئی۔ منٹو کی زندگی اور موت کو سمجھنے کے لیے مسز منٹو کے کردار کا جائزہ بھی بےحد ضروری ہے۔ڈاکٹر حسن منظر نے بتایا کہ ’1954 کے میو ہسپتال کے جب میں ’شرابیوں کے وارڈ‘ میں ورچوئل راؤنڈ کر رہا ہوتا تھا تو کئی بار صفیہ بیگم نظر آتی تھیں۔ اچھی اور مدبر خاتون کے طور پر، مردوں کے وارڈ کے باہر کھڑی ہوئی۔ شوہر کی فکر کرتی ہوئی، بیٹیوں کو تن تنہا پالتی ہوئی، شوہر کی شہرت اور لمحہ لمحہ موت کو جھیلتی ہوئی۔ڈاکٹر منظر سے گفتگو کر کے ایسا معلوم ہوا جیسے صفیہ بی بی منٹو کی زندگی میں ایسے ہی شامل رہیں جیسے فلموں میں ایک معاون کردار ہوتا ہے، جو ہیرو کے پس منظر میں دبا رہتا ہے، مگر جسے ہٹا دیں تو فلم نامکمل رہتی ہے۔مشہور فقرہ ’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے،‘ بے شک کلیشے کا درجہ اختیار کر گیا ہو، مگر جتنا یہ صفیہ بی بی پر فٹ بیٹھتا ہے، شاید ہی کسی اور خاتون پر۔